حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان اور انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ریفارمز پاکستان کے زیر اہتمام آن لائن کانفرنس بعنوان ’’اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے مسئلہ فلسطین اور کشمیر پر اثرات‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ آن لائن کانفرنس کی صدارت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر داخلہ اور چیئرمین آئی آر آر سینیٹر رحمان ملک نے کی۔ کانفرنس سے معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) غلام مصطفیٰ، بلوچستان عوامی پارٹی کی رہنماء اور سابق سینیٹر ستارہ ایاز، جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد، جمعیت علماء اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر طلحہ محمود، پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی رہنماء خرم نواز گنڈا پور، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنماء اور مرکز مطالعات پاکستان و خلیج کے صدر ناصر شیرازی اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم نے خطاب کیا۔ اس موقع پر میزبانی کے فرائض علی واصف نے انجام دیئے۔
رحمان ملک (پاکستان پیپلز پارٹی)
سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ مسلمان آج اپنے مقصد سے اور اہداف سے ہٹ گئے ہیں، ہماری طاقت جو ایک امت میں تھی، اب نہیں رہی ہے، جب ہم کسی بھی مسئلے پر دیکھتے ہیں تو ہم میں اتحاد اور اتفاق نہیں ہے، خواہ وہ مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین، امت میں اب اتحاد نہیں ہے، جس کا براہ راست فائدہ اسرائیل اور بھارت مسلمانوں کے خلاف اٹھا رہے ہیں۔ مسئلہ فلسطین برطانیہ کی جانبدارانہ اقدام کا نتیجہ ہے، برطانیہ نے یہودیوں کو 20 فیصد فلسطینی زمین دی تھی، اب جس کی 80 فیصد زمین پر یہودی قابض ہوچکے ہیں، یہ ان کی اسٹریٹیجی تھی، انھوں نے ایسے اقدامات کئے، جس سے خطے میں عدم توازن کی صورتحال قائم رہے، مشرقی وسطیٰ کو ایک سوچے سمجھے طریقے سے عدم توازن کا شکار رکھا گیا ہے، تاکہ مسئلہ فلسطین کی جانب دنیا کی توجہ ہی نہیں جائے۔
رحمان ملک نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ کس طرح عراق، ترکی، لیبیا، شام، یمن ان تمام مشرقی وسطیٰ کے ممالک کو ایک دوسرے سے برسرپیکار کر دیا گیا اور سب سے خطرناک داعش جسے سب جانتے ہیں، داعش کو کس نے بنایا اور کیوں بنایا، داعش میں ابتدائی طور پر شامل ہونے والوں میں فوجی تھے، جن سے ملنے کیلئے ایک امریکی سینیٹر آیا، اس حوالے سے عالمی میڈیا میں خوب چرچہ ہوا تھا، یہ مسلمانوں کیلئے خلاف ایک بہترین انداز میں بنایا گیا خطرناک منصوبہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جو طریقہ کار امریکا نے مڈل ایسٹ میں کیا، وہی پاکستان کے ساتھ بھی کیا گیا، جس طرح روس کے خلاف پوری دنیا سے مسلمانوں کو یہ کہہ کر بھیجا گیا کہ ایک مسلم ملک پر حملہ ہے، اس طرح ہزاروں مجاہدین کو روس کے خلاف امریکا میں لڑنے کیلئے تیار کیا اور جب ان کا مقصد پورا ہوگیا تو ان کو بھی وہیں چھوڑ دیا اور ہم کو بھی۔
انہوں نے کشمیر کی نازک صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ستر سال ایک ایسے گراؤنڈ میں کھیلا جو ہمارا نہیں تھا، حکومت ہندوستان نے ہمیں بدنام کرنے کیلئے ہر ممکن طریقہ کار اختیار کیا اور مغرب نے اس میں اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ کشمیر میں کیا جا رہا ہے، جس طریقے سے انسانیت سوز مظالم اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور جس طرح جغرافیائی حقائق کو مسخ کیا جا رہا ہے، وہ بالکل ویسا ہی طریقہ کار ہے جیسا غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں اختیار کیا ہوا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے مقبوضہ فلسطین کے حوالے سے الفاظ دہراتے ہوئے کہا ہے قائداعظم نے فرمایا تھا کہ اگر امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات کا ساتھ نہیں دیں تو اسرائیل فلسطین پر قابض نہیں ہوسکتا۔
رحمان ملک نے کہا ہے کہ قائد کے فرمان کے برعکس ہم نے دیکھا کہ کس نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، مسلمان آج اپنے مقصد سے اور اہداف سے ہٹ گئے ہیں، ہماری طاقت جو ایک امت میں تھی، اب نہیں رہی ہے، جب ہم کسی بھی مسئلے پر دیکھتے ہیں تو ہم میں اتحاد اور اتفاق نہیں ہے، خواہ وہ مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین امت میں اب اتحاد نہیں ہے، جس کا براہ راست فائدہ اسرائیل اور بھارت مسلمانوں کے خلاف اٹھا رہے ہیں۔ سابق سینیٹر نے کہا کہ خوف اور ڈر سے قومیں ختم ہو جاتی ہیں، ہمیں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر بھرپور انداز میں عالمی سطح پر اس پر بات کرنا ہوگی۔
جنرل (ر) غلام مصطفیٰ (عسکری تجزیہ کار)
جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے ویبنار سے خطاب میں کہا کہ ایران، پاکستان اور ترکی اسرائیل، بھارت اور امریکا کے خلاف حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں تو عرب ممالک کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ ہمارا ساتھ دیں، اسرائیل اور امریکہ مسلمانوں کے خلاف ایک ساتھ ایک خطرناک منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امریکا نے اسرائیل کے ہر ناجائز اقدام میں اس کا بھرپور ساتھ دیا ہے، سابق امریکی صدر ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، گولان ہائٹس جو ملک شام کا حصہ تھا، اس کو اسرائیل کو دے دیا، جیسے یہ ان کے باپ کی جاگیر ہو، ڈیل آف سینچری پیش کی جو ناکام ہوئی تو معاہدہ ابراہیم کے نام سے ایک اور منصوبہ شروع کیا، جس میں ان کو بہت حد تک کامیابی حاصل ہوئی، اسرائیل نے اپنا اثر و رسوخ اردگرد کے ممالک سوڈان، اومان، مصر اور دیگر عرب ممالک پر ڈال دیا ہے، حتیٰ کہ کشمیر اور افغانستان میں بھی ان کی موجودگی کی مصدقہ اطلاعات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے پورے خطے میں اپنے پنجے گاڑ دیئے ہیں اور اس میں بھارت اور امریکا اس کے ساتھ ساتھ ہیں، ایسی صورتحال میں اسرائیل کو اگر کسی ملک سے خطرہ ہے تو وہ پاکستان ہے اور کسی حد تک ایران سے ہے۔ غلام مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ اسرائیل امریکہ اور بھارت کی مسلمانوں کے خلاف کھلی خلاف ورزیاں اور مظالم جاری ہیں، اس سے مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلم امہ کا اب کوئی وجود نہیں ہے، جس طرح ہمارے نبی (ص) کی شان میں گستاخیاں ہو رہی ہیں، جس نے ہم سب کو غمگین کر دیا ہے، لیکن اپنی موجودگی کا جو مضبوط پلیٹ فارم تھا، وہ اب مؤثر نہیں رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر جن کو رہنمائی کرنی چاہیئے تھی، وہ اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ابراہیم کا ناصرف حصہ ہیں بلکہ اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں بھی صیہونی ریاست کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔
انہوں نے صیہونی ریاست کے مظالم کا شکار مظلوم فلسطینیوں کی ہمت کی داد دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قوم نے اتنی طویل جنگ ایک ایسے دشمن سے نہیں لڑی، جو جنگی طور پر ہر لحاظ سے ان سے بہت بہتر ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ جو صورتحال مقبوضہ فلسطین میں ہے، وہی کشمیر میں ہے لیکن جو قومیں خون دینا اور قربانی دینا سیکھ جاتی ہیں، ان کو شکست نہیں دی جاسکتی، کشمیر اور فلسطین آزاد ہیں، صرف جغرافیائی طور پر آزادی باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اب بحیرہ عرب تک آگیا ہے، اسرائیل کو خطرہ صرف پاکستان سے ہے، ایسی صورتحال میں پاکستان کو ترکی اور ایران کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیئے، کیونکہ اسرائیل ایران کے خلاف کھلے عام دھمکیوں پر اتر آیا ہے اور ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملے بھی کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایران، پاکستان اور ترکی اسرائیل، بھارت اور امریکا کے خلاف حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں تو عرب ممالک کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ ہمارا ساتھ دیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے ترکی، پاکستان اور ایران کا ساتھ نہیں دیا تو ان کی تباہی طے ہے۔
ناصر عباس شیرازی (مجلس وحدت مسلمین پاکستان)
ایم ڈبلیو ایم رہنما ناصر عباس شیرازی نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ایٹمی ری ایکٹر سے صرف آٹھ میل دور ملک شام نے حملہ کیا، جس کو اسرائیل کا سب سے جدید ترین دفاعی نظام نہیں روک سکا ہے، اسرائیلی اب ایک نئے خوف میں مبتلا ہیں اور یہ سب صرف مسلح مزاحمت سے ہی ممکن ہوسکا ہے، اسرائیل پاکستان کا کھلا دشمن ہے، اسرائیل ہر اس منصوبے میں شامل ہے، جس میں پاکستان کو نقصان پہچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل، بھارت اور امریکا پاکستان کو نقصان دینے کیلئے مشترکہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے سی پیک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سی پیک کو ناکام کرنے اور چین کو پاکستان سے بدظن کرنے کیلئے جس قسم کی سازشیں ہو رہی ہیں، وہ ہمارے پڑوس میں تیار کی جا رہی ہیں اور اسرائیل اس میں بھرپور مددگار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیل نے عراق اور لیبیا کا ایٹمی پلانٹ تباہ کیا اور اس کو تسلیم بھی کیا تو کیا اسرائیل کو یہ قبول ہوگا کہ وہ پاکستان کو ایٹمی طاقت رہنے دے؟ تو اس سلسلے میں تمام مزاحمتی جماعتوں اور نظریات رکھنے والوں کو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنا چاہیئے، مسلح مزاحمت ہی اسرائیل کا واحد علاج ہے، عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے دو گھنٹوں میں مصر سے صحرائے سینا لیا تھا اور اردن سے مغربی کنارہ لیا تھا، لیکن 2006ء میں لبنان سے ہونے والی جنگ میں اسرائیل نے حزب اللہ کی مسلح مزاحمت کے سامنے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ناصرف اسرائیل کو عسکری میدان میں حزب اللہ سے شکست ہوئی ہے بلکہ سماجی میدان میں بھی حزیمت اٹھانی پڑی ہے، اسرائیل نے 20 لاکھ نفوس پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیئے جانے والے شہر غزہ جس میں ایک سیمنٹ کی بوری سمیت خوراک اور ادویات نہیں جاسکتیں۔
ناصر شیرازی نے کہا کہ حماس نے اسرائیل کو وہاں بھی بدترین شکست دی، جس کے نتیجے میں اسرائیل حماس کی تمام شرائط ماننے پر مجبور ہوا اور جنگ بندی پر راضی ہوا، یہ مزاحمت ہی ہے جس سے اسرائیل کے گریٹر اسرائیل کا خواب اب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے، اسرائیل کے ایٹمی ری ایکٹر سے صرف آٹھ میل دور ملک شام نے حملہ کیا، جس کو اسرائیل کا سب سے جدید ترین دفاعی نظام نہیں روک سکا ہے، اسرائیلی اب ایک نئے خوف میں مبتلا ہیں اور یہ سب صرف مسلح مزاحمت سے ہی ممکن ہوسکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج سے پہلے اسرائیل دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر اسرائیل میں بسا رہا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ یہاں غیر یقینی کی صورتحال کے پیش نظر بہت بڑی تعداد یورپ میں جاکر آباد ہو رہی ہے، اسرائیل میں سکیورٹی کی صورتحال خراب ہو رہی ہے، جس نے اسرائیل کو حواس باختہ کر دیا ہے۔
ڈاکٹر صابر ابومریم (فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان)
ڈاکٹر صابر ابو مریم نے کہا ہے کہ ایوان بالا اور ایوان زیریں میں صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی کی جائے، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ پی ایل ایف سربراہ نے اعلیٰ عہدیداران اور شخصیات سے گزارش کی ہے کہ وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی کریں اور اس حوالے سے بتائیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کسی بھی صورت قابل قبول نہیں اور نہ پاکستان کے مفاد میں ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر تمام مسلمانوں سے کہا کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ (جمعۃ الوداع) کو یوم القدس کے عنوان سے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔
صابر ابو مریم نے کہا کہ ہم یوم القدس کے دن اپنی آوازوں کو مسئلہ فلسطین کے حق میں بلند کریں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے یکم رمضان کو صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کو ایک خط ارسال کیا ہے، جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو سرکاری سطح پر یوم القدس کا اعلان کیا جائے اور حکومتی سطح پر تقریبات منتعد کی جائیں، تاکہ ہم بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے نظریئے کو آگے لے کر چلیں، جس میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر ہماری ترجیح ہے۔
خرم نواز گنڈاپور (پاکستان عوامی تحریک)
خرم نواز گنڈاپور نے مقبوضہ فلسطین اور کشمیر کے نہتے مظلوم مسلمانوں کی امداد کیلئے قرآن کریم کی سورۃ نساء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مظلوم کی آزادی کیلئے جہدجہد کرنا حکم ربی ہے، جس کیلئے اٹھنا ہم پر فرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کیلئے اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ پاکستان ہے، جس کیلئے وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے، فی الحال پاکستان اور ترکی دو ایسے عسکری اعتبار سے مضبوط ممالک ہیں، جن کے ایران کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کے ساتھ بھی بہتر تعلقات ہیں تو ہم کو چاہیئے کہ اس حوالے سے ایک ایسی مشترکہ حکمت عملی تریب دیں، جو ہمارے مفادات اور نقطہ نظر کو متحد کریں، اس حوالے سے چین ہماری حمایت کرے گا اور یہ اس کی مجبوری ہے، کیونکہ چین کو اگر اوور لینڈ روٹ چاہیئے تو وہ صرف ایران پاکستان اور ترکی ہی اس کو دے سکتے ہیں، تو میرا خیال ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے چین، روس، ترکی، پاکستان اور ایران اس میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، جن میں سے تین ممالک ایران، پاکستان اور ترکی کا نقطہ نظر قبلہ اول کے حوالے سے ایک ہے۔
سینیٹر طلحہ محمود (جمعیت علمائے اسلام ف)
جے یو آئی رہنماء سینیٹر طلحہ محمود نے کہا ہے کہ دنیا میں ہونے والی ہر غیر معمولی منفی سرگرمی کے پیچھے صیہونی ریاست یا صیہونی ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ فلسطین اور کشمیر ایک انتہائی حساس موضوع ہے، جس پر اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دینے کیلئے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں انسانیت کے خلاف ہونے والے اقدامات کی حد پار کرلی ہے، اسرائیل ریلیف کے کاموں کیلئے بھی امدادی کارکنان کو غزہ جانے کی اجازت نہیں دیتا ہے اور اس پر دنیا خاموش ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی غیر معمولی سرگرمی ہوتی ہے تو اس کے پس پردہ اسرائیل ہی ہوتا ہے، اس کے پیچھے صیہونی نظر آتے ہیں لیکن ہمیں شکوہ صیہونیوں سے نہیں بلکہ اپنے اندر موجود غداروں سے ہے۔
سینیٹر ستارہ ایاز (بلوچستان عوامی پارٹی)
ستارہ ایاز نے کہا ہے کہ بدقسمتی یہ ہے کہ مسلم ممالک آج متحد نہیں ہے، عالمی فورمز پر کتنے ممالک نے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور آواز اٹھائی ہے، حالانکہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین میں انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے۔ عرب ممالک کے صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور معاشی تعلقات کے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین پر ہونے والے اثرات کے حوالے سے منعقدہ ویبنار میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سینٹر ستارہ ایاز کا کہنا تھا کہ ارض مقدس فلسطین سے ہماری مذہبی اور جذباتی وابستگی ضرور ہے، لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں نے مسئلہ فلسطین کو اس طرح اسے اجاگر نہیں کیا، جس طرح سے اس کی ضرورت تھی، مسلمانوں کے آپس کے اختلافات نے دشمن کو آج اتنا طاقتور کر دیا ہے کہ وہ انسانیت سوز مظالم ڈھا رہے ہیں اور ہم سوائے افسوس اور مذمت کے کچھ نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم آج مقبوضہ فلسطین سے نظر چرا لیں تو ہم کشمیر پر کیسے اپنے مؤقف کو دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔؟ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ مسلم ممالک آج متحد نہیں ہیں، عالمی فورمز پر کتنے ممالک نے مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھائی ہے اور مسئلہ فلسطین پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے، حالانکہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین میں انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے، انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، لیکن اسلامی ممالک نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، آج صیہونی ریاست نے سب ہی ممالک کو اپنے کنٹرول میں کرلیا ہے اور پاکستان پر بھی اس کی نگاہ ہے، لیکن ہم اس لئے کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ہم متحد نہیں ہیں، لیکن اب ہمیں متحد ہونا پڑے گا اور اپنی بقاء کیلئے دشمن کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔
سینیٹر مشتاق احمد خان (جماعت اسلامی)
سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ دہشتگرد ریاست اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں انسانیت سوز سنگین جرائم کئے ہیں، جس کا حساب دینا ہی ہوگا۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین پر ویبنار منعقد کرنے پر ڈاکٹر صابر ابو مریم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی سرگرمیاں وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ارض فلسطین ایک لاکھ چوبیس ہزار ابنیاء کی سرزمین ہے، یہ کسی ایک مسلمان کا نہیں، یہ تمام مسلم امہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مقدس سرزمین کی صیہونی طاقتوں سے بازیابی کی کوششیں کریں، جہاں سے سرور کونین آقائے دو جہاں (ص) نے سفر معراج شروع کیا تھا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا ہے کہ ارض مقدس فلسطین سے دستبرداری درحقیقت حرمین شریفین سے دستربرداری ہوگی۔
انہوں نے بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے مقبوضہ فلسطین کے حوالے سے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے صیہونی ریاست کی شرانگیزیوں کو جانتے ہوئے سب سے پہلے سینیٹ میں اسرائیل اور امریکا کی تیار کردہ نام نہاد امن منصوبہ صدی کی ڈیل کو ایک تباہ کن منصوبہ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا۔ انہوں نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کو انجمن غلامان امریکا کا لقب دیتے ہوئے کہا کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں سے کوئی امید نہیں ہے، امت مسلمہ اور ہے اور حکمران اور ہیں، دشمن نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک ارب بیس کروڑ مسلمانوں کو پسماندہ رکھا ہے، تاکہ امت مسلمہ ایک نہ ہوسکے، وہ وقت دور نہیں جب مسلمان اس دہشتگرد ریاست اسرائیل کے خلاف غلام حکمرانوں کے بغیر متحد ہو جائیں گے اور بہت جلد قبلہ اول صیہونی طاقتوں سے آزاد ہو جائے گا۔