۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
بر صغیر کے علماء و اسلامک اسکالرز

حوزہ/ اسلامی انقلاب کی تینتالیسویں سالگرہ کے موقع پر بر صغیر کے ممتاز علماء و اسلامک اسکالرز حجت الاسلام و المسلمین آقا سید حسن الموسوی، حجت الاسلام و المسلمین عالی جناب مولانا روح ظفر رضوی، حجت الاسلام و المسلمین علامہ شہنشاہ نقوی سے انٹرویو کئے۔ تینوں دانشوروں کے تاثرات ملاحظہ فرمائيے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلامی انقلاب کی تینتالیسویں سالگرہ کے موقع پر بر صغیر کے ممتاز علماء و اسلامک اسکالرز حجت الاسلام و المسلمین آقا سید حسن الموسوی، حجت الاسلام و المسلمین عالی جناب مولانا روح ظفر رضوی، حجت الاسلام و المسلمین علامہ شہنشاہ نقوی سے انٹرویو کئے۔ تینوں دانشوروں کے تاثرات ملاحظہ فرمائيے۔

حجت الاسلام و المسلمین آقا سید حسن الموسوی بزرگ عالم دین اور اسلامک اسکالر کشمیر صدر جموں و کشمیر انجمن شرعی شیعیان:

سوال: کشمیری عوام میں ایران کے اسلامی انقلاب کے سلسلے میں خاص اپنائیت کا جذبہ دیکھنے میں آتا ہے، کیوں؟

جواب: انقلابِ اسلامی ایران کی سالگرہ کے موقع پر ایرانی قوم و قیادت اور دنیا بھر میں اس انقلاب کے عقیدتمندوں کی خدمت میں پُرخلوص ہدیۂ تہنیت پیش کرتا ہوں۔

انقلابِ اسلامی ایران کے ساتھ ملتِ کشمیر کی والہانہ عقیدت اور جذبات کی وابستگی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کشمیری قوم انقلابِ اسلامی کو انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ انقلاب قرآن و سنت اور عقیدۂ امامت و ولایت کی بنیادوں پر استوار ہے۔ اس انقلاب کے ساتھ کشمیریوں کی وابستگی کا ایک اور اہم محرک بانیٔ انقلاب حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی برگزیدہ شخصیت ہے جن کی سیرت و کردار میں واضح طور پر انبیائی جھلک نظر آ رہی تھی۔

یوں تو کشمیر اور ایران کے باہمی روابط اور رشتوں کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ ایران کے ساتھ اہلِ کشمیر کے دینی، ملی، تہذیبی اور ثقافتی رشتے ہیں۔ایران نے ہمیشہ کشمیریوں کے ساتھ اپنے رابطوں کو خصوصی اہمیت دی ہے موجودہ رہبرِ معظم نے امامِ راحل کے دورِ حیات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ہدایت پر کشمیر کا دورہ کیا۔ ان کا دورہ کشمیر اتحاد ملی کے حوالے سے ایک تاریخی دورہ ہے۔ رہبرِ معظم نے اس وقت کشمیر کے جن دو دینی مراکز کو اہمیت دی ان میں مرکزی جامع مسجد سری نگر اور مرکزی امام باڑہ "بڈگام" شامل ہے۔

خدا کے فضل و کرم سے انقلابِ اسلامی ایران ترقی اور سربلندی کے سنگِ میل متواتر عبور کر رہا ہے۔ شرق و غرب کی اسلام دشمن استکباری طاقتوں نے ایرانی قوم و قیادت کو انقلابِ اسلامی اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نصب العین سے ہٹانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کیں۔ ایران سے نفرت اور دشمنی کی تمام حدیں پار کی گئیں لیکن اللہ کے فضل سے ایرانی قوم اور قیادت کے عزم و ایمان میں کوئی لغزش پیدا نہیں ہوئی۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ انقلابِ اسلامی کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے۔

حجت الاسلام و المسلمین عالی جناب مولانا روح ظفر رضوی ‏اسلامک اسکالر اور ممتاز عالم دین مقیم ممبئی ہندوستان

سوال: اسلام ایک ضابطہ حیات ہے، جو صرف عبادات اور شخصی و انفرادی امور تک محدود نہیں بلکہ معاشرہ سازی اور ‏نظام ‏سازی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا عملی ثبوت پیش کرنے میں ایران کس حد تک کامیاب ہوا؟

جواب: حقیقت یہ ہے کہ ہم خود بھی ایران میں رہے ہیں اور جس طریقہ سے دنیا نے ترقی کی ہے تو دنیاوی ترقی کو دیکھتے ہوئے اگر علمی میدان میں دیکھا جائے تو ایران نے جس طریقہ سے علمی میدان میں ترقیاں کی ہیں اس کو کوئی چھپا نہیں سکتا، اس پر کوئی پردہ نہیں ڈال سکتا۔ آج دنیا میں اولمپیاڈ ہوتے ہیں اور یہ جو مختلف قسم کے اولمپیاڈ ہو رہے ہیں، علمی اولمپیاڈ جو ہو رہے ہیں ان میں اگر دیکھا جائے اگر ایران کے اسلامی نظام نے اپنے یہاں تعلیمی نظام کو معتبر نہ کیا ہوتا تو دنیا کے اولمپیاڈ جو علمی مسابقے اور مقابلے ہیں فزکس، کمسٹری اور نہیں معلوم سائنس، ریاضی اور میتھمیٹکس کے ان سارے میدانوں میں ایرانی طلباء، اسٹوڈنٹس جس طریقہ سے کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں وہ خود زندہ ثبوت ہے کہ ایران کا تعلیمی نظام ہے کس طریقہ سے دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور چہ بسا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی دائرہ میں رہتے ہوئے ان سے آگے ہے۔ کیونکہ ہر مقابلہ میں پوزیشن حاصل کرنا، پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں پوزیشن کو حاصل کرنا یہ خود ایک زندہ ثبوت ہے کہ یہاں کا تعلیمی نظام میدانِ عمل میں اپنی قوم کو کتنا آگے بڑھا رہا ہے۔

اسی طریقہ سے اگر تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ اقتصادی نظام میں دیکھا جائے تو دنیا میں آج اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے، قانونِ اسلامی میں رہتے ہوئے جو پورا بینکنگ نظام ہے، اقتصاد کا جو نظام ہے، جس طریقہ سے پوری دنیا کے سامنے ایران نے پیش کیا ہے۔ واضح ہے کہ کس طریقہ سے کہیں پر کسی شعبہ میں ناکامی نہیں ہے اور ایران اسلامی نظام کے دائرہ میں رہتے ہوئے بینکنگ سسٹم کو چلا رہا ہے۔ اقتصادی میدان میں بھی ہے، سیاسی نظام میں بھی ہے، دنیا کے، زندگی کے جس شعبہ میں بھی آپ دیکھئے ہر شعبہ میں آج موجودہ حالات میں یہ کرونا کے دور میں جو کرونا کےحالات ہیں اس کرونا کے حالات میں بھی جس طریقہ سے کامیابیاں ملی ہیں ایران کو اور جس طریقہ سے ویکسین کو بنایا ہے ایران نے تو یہ اسلامی انقلاب کی دین ہے کہ اس طریقہ سے ترقی کی ہے اور کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

میں نے عرض کیا جس شعبہ میں آپ دیکھیں گے۔ اسپورٹس کے میدان میں آپ دیکھ لیں جو کھیل اسلامی قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے جس میں بے حیائی اور بے ادبی نہیں ہوتی ہے جن کھیلوں کی اجازت اسلام نے دی ہے ان کے ہر شعبہ میں ایران کتنی ترقی پر ہے۔ جو بھی گیم ہے، کھیل ہے سب میں۔

تو اس طریقہ سے ہر جگہ پر، ہر میدان میں جس میدان میں بھی عملی ثبوت دیکھنا ہے ہر جگہ مل جائے گا۔ کارخانوں کو دیکھنا ہے تو وہ بھی دیکھ لیجئے، سڑکوں کو دیکھنا ہے تو وہ بھی دیکھ لیجئے۔ آج دنیا جس چیز سے یعنی جس نکتے پر آپ دنیا کو کامیاب کہیں گے اس نکتہ کو ایران میں جا کر انقلابِ اسلامی کے دائرے میں ڈھونڈ لیجئے وہاں پر آپ کو عملی ثبوت ملے گا۔

حجت الاسلام و المسلمین علامہ شہنشاہ نقوی پاکستان کے معروف اسلامک اسکالر اور عالم دین

سوال: رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے حتمی ہدف و مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہماری ‏حتمی ‏منزل حیات طبیہ ہے۔ ‏اس بیان کی روشنی میں حیات طیبہ کی تشریح ‏فرمائیں۔

جواب: فَلَنُحْیِیَنَّهُ حَیاةً طَیِّبَةً (نحل، 97) اللہ صاحبانِ ایمان؛ چاہے وہ مرد ہوں یا عورت، عملِ صالح انجام دینے پر انہیں حیاتِ طیبہ عطا کرتا ہے اور ایسا اجر عطا فرماتا ہے، ایسی جزا عطا فرماتا ہے کہ جو جزا دنیوی زندگی اور اخروی حیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ انسان مرکب ہے روح اور بدن سے۔ روح کے تقاضے اور بدن کے تقاضے مختلف ہیں اور یہ دونوں چیزیں کیونکہ اللہ نے قرار دی ہیں لہذا ان دونوں کی تسکین اور ان دونوں کی ترتیب اور ترقی بھی اللہ ہی کے نظام کا حصہ ہے۔ جسم کی سہولتوں کو آسائش و آرام اور دنیوی حیات اور روح کی ترقی اور بہتری کو دنیوی حیات کے ساتھ اخروی حیات سے جوڑا گیا ہے۔ ایک کامیاب انسان جو ایک کامیاب معاشرہ کو تشکیل دیتا ہے اس کے لئے ان تمام پہلوؤں کو جامعیت کے ساتھ لے کر چلنا زندگی کا مقصد ہے۔ ایک ایسی زندگی جس میں اپنے رب کے ساتھ تعلق، اپنے گھر والوں کے ساتھ وابستگی اور اپنے ساتھ انصاف اور معاشرہ کے ساتھ اعتدال حاکم ہو وہ پسندیدہ زندگی ہے ۔

اس صدی میں انقلابِ اسلامی ایران ان اہداف کو حاصل کرنے میں تمام اسلامی ممالک کی نسبت زیادہ بہتر ثابت ہوا ہے۔ اگرچہ جیسا کہ مذکورہ بیان میں کہا گیا کہ ہدف اور مقصد اور اس کے اصول تک رسائی اور آگے کی منزلوں کا تقاضا کرتی ہیں اور مزید محنت اور بہتر کارکردگی کا مطالبہ کرتی ہیں۔

ہماری صدی میں اللہ نے ہمیں ایک کامیاب نظامِ حکومت اور ایک بہترین معاشرہ کی صورت میں اس مملکت کے ذریعہ سے حوصلہ عطا کیا اور ہماری ہدایت فرمائی ہے۔

ہم تمام اسلامی ممالک بالخصوص اور بالعموم تمام ممالک میں قرآنی نظامِ حیات کو حاکم دیکھنا چاہتے ہیں اور دعوت دیتے ہیں تمام ممالک کے سربراہوں اور عوام کو کہ وہ قرآنی معاشرے کی صف جس میں رسول اللہ (ص) کی سیرت اور ائمہ اہل بیت (ع) کی قربانیاں اور اصحابِ منتجبین کی جانثاریاں اس معاشرے کی تشکیل میں بنیادی اور اساسی اصول کی حیثیت رکھتی ہیں، کی جانب توجہ کریں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .