۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا شیخ ابن حسن املوی

حوزہ/ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے اعلیٰ افکار و نظریات کی بلند پروازی کے ذریعہ امت مسلمہ کے کھوئے ہوئے وقار و اقدار کو حتی الوسع بحال کیا بلکہ پوری دنیاکو ایک بار پھر سے اسلامِ حقیقی کی روشنی سے روشن و منور فرمایا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بڈگام۔سرینگر،کشمیر/ حوزہ ٔ علمیہ جامعہ باب العلم ،بڈگام،سرینگر،کشمیر میں حجۃالاسلام والمسلمین آغا سید حسن الموسوی الصفوی کی زیر قیادت و صدارت انجمن شرعی شیعیان جموں و کشمیر کے زیر اہتمام حضرت امام خمینی ؒ کی ۳۳ویں برسی کی مناسبت سے بتاریخ ۴؍جون بروز شنبہ منعقدہ عظیم الشان بین المذاہب کانفرنس بعنوان ’’ امام خمینی اتحاد بین المذاہب کے داعی‘‘ میں حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا شیخ ابن حسن املوی واعظ نے "امام راحل حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے امتیازی افکار و نظریات" کے عنوان سے مقالہ پیش کیا جسکا مکمل متن اس طرح ہے؛

انسان کے افکار و نظریات خود انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔جسمانی و روحانی صحت و سلامتی کا دارومدار خود اسکے ذاتی افکار و نظریات و تصورات خیالات پر مبنی ہوتے ہیں۔اسی طرح قوموں کے عروج و زوال اور معاشرہ کی اچھائی و خرابی ،آبادی و بربادی رہبران ِ قوم ومصلحین ِ ملک و ملت کے افکارونظریات کی بلند پروازی پر منحصر ہوتے ہیں۔
انسانی زندگی کے تحرک وارتقا ء میں افکارو نظریات کی اہمیت کے بارے میں ایک اچھی مثال سے وضاحت کی گئی ہے:۔
’’ فکر زندگی میں انسانی قدموں کی طرح چلتی ہے ۔انسان جس طرح دایاں قدم اٹھاتا ہے پھر جب یہ قدم رکتا ہے تو بایاں قدم اس سے آگے نکلتا ہے ۔پھر بایاں قدم اٹھاتا ہے تو دایاں قدم اس سے آگے بڑھاتا ہے ۔اسی طرح اہل علم و فکر امت ِ مسلمہ کی زندگی کو تحریک دے کر قوم کی زندگی کو آگے بڑھاتے ہیں۔اسی فلسفہ کو شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے اس شعر میں پیش کیا ہے ؎
قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف
تاریخ کی کتابوں میں افکار و نظریات کی اہمیت و افادیت اور دنیا کے مشاہیر قائدین و مصلحین اور زعماء و عمائدین کے افکار و نظریات تفصیل کے ساتھ درج کئے گئے ہیں جیسے ابن خلدون،مہاتما گاندھی جی،سرسید احمد خان وغیرہ اسی طرح حضرت امام خمینی ؒ کے امتیازی افکار و نظریات شر ح و بسط کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں۔
حدیث بیان کی جاتی ہے کہ :پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ اس امت کی ہدایت کے لئے ہر صدی میں ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جو اس امت کے لئے اللہ کے دین کی تجدید کرے گا‘‘اور پھر کتابوں میں مجدّدین کی طویل فہرست بھی مرقوم ہے ۔اس بنا پر میں یہ بات فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بلا شبہ بیسویں صدی کے عظیم مجدد کا نام نامی اسم گرامی آیۃ اللہ العظمی ٰ حضرت روح اللہ الموسوی الخمینی ؒ ہے۔جو عالمی اسلامی انقلاب کے قائد ِبزرگ اورجمہوری اسلامی ایران کے بانی ،عظیم و مقدس روحانی پیشوا کی حیثیت سے پوری دنیا میں ایک نمایاں شان کے حامل جانے اور مانے جاتے ہیں۔ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہی جابرانہ نظام حکومت کا خاتمہ آپ ہی کے افکار و نظریا ت کی بدولت انجام پایا۔
معتبر و موثق احادیث میں سے ہے کہ : عُلَمَاء أُمَّتِیْ کَأَنْبِیَاءِبَنِیْ إِسْرَائِیْل ۔یعنی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ’’میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے مانند ہیں‘‘۔اور ایک حدیث میں ہے :اَلْعُلْمَاءُ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ ُ ۔یعنی علماء انبیاء کے وارث ہیں‘‘۔ان احادیث کی روشنی میں حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات کو دیکھتے ہوئے میں یہ بات فخریہ انداز میں کہہ سکتا ہوں کہ عہد حاضر میں اگر امام خمینی ؒ نہ ہوتے تو یہ حدیثیں تشنۂ تعبیر رہ جاتیں۔
حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے اعلیٰ افکار و نظریات کی بلند پروازی کے ذریعہ امت مسلمہ کے کھوئے ہوئے وقار و اقدار کو حتی الوسع بحال کیا بلکہ پوری دنیاکو ایک بار پھر سے اسلامِ حقیقی کی روشنی سے روشن و منور فرمایا۔ گذشتہ پانچ یا چھ صدیوں میں امام خمینی رح وہ واحد رہبر ہیں جنہوں نے نہ صرف انقلاب کے متعلق نظریاتی تھیوری بیان کی بلکہ اس کو عملی جامعہ بھی پہنایا۔
انقلاب اسلامی ایران جو( 1357 ش 1979ء )میں حضرت امام خمینی رح کی رہبری میں کامیابی سے ہمکنار ہوا اکثر صاحبان نظر، دانشوروں اور بالخصوص اس کے اصلی معمار کی نظر میں کچھ دنیادی خصوصیات اور امتیازات کا حامل ہے جو اس کو دوسرے انقلابات سے ممتاز کرتے ہیں کہ ہم اس مقالے میں بعض اہم خصوصیات کا ذکر کر رہے ہیں ۔
حضرت امام خمینی قدس سرہ کے افکار و نظریات میں چند امور کو بہت زیادہ اہمیت اور قدر و منزلت کا درجہ حاصل ہے جن کے باعث دنیا کے تمام اعلیٰ سطحی بین الاقوامی بانیان ِانقلاب ،مصلحین و قائدین ِقوم و معاشرہ ا ور مجدّدینِ و عمائدینِ مذہب و ملّت کے درمیان حضرت امام خمینی ؒ کو آفاقی و لا ثانی اور ممتاز ہستی کا حامل بنا دیا۔
اول: اللہ و رسول ؐو اہل بیت ؑ پرپختہ ایمان و عقیدہ۔ بانی انقلاب اسلامی ایران کے وصیت نامہ میں اس سلسلے میں اس طرح آیا ہے : ہم جانتے ہیں کہ اس عظیم انقلاب نے جو ستمگروں اور جہاں خواروں کے ہاتھ کو ایران سے دور کر دیا ہے وہ الہی تائیدات کے زیر سایہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔ اگر خداوند متعال کی تائید ہم پر نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ ایک36 ملیون(تین کروڑ 60 لاکھ) پر مشتمل آبادی اسلام اور روحانیت مخالف پروپیگنڈوں کے باوجود بالخصوص اس آخری صدی میں ایک ساتھ قیام کرے اور پورے ملک میں ایک رائے ہو کر حیرت انگیزاور معجزہ آساقربانی اور نعرہ اللہ اکبر کے سہارے خارجی اور داخلی طاقتوں کو بے دخل کر دے۔ بلا تردید اس مظلوم دبی کچلی ملت کے لیے خداوند منان کی جانب سے یہ ایک تحفہ الہی اور ہدیہ غیبی ہے۔ (صحیفہ امام، ج21، ص401)
دوم: اتحاد قومی و ملّی۔اسلام کے تمام مشرب خواہ فلسفی عرفانی اخلاقی کلامی یا تربیتی ہوں ان سب کی اساس توحید ہے اور وہ عالم ھستی کی تمام موجودات کو ذات وحدہ لاشریک کی آیات سمجھتے ہیں البتہ اہل تحقیق پر یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ انسانی معاشرے کے اتحاد کی خواہش عقیدہ توحید کا ایک جلوہ ہے اور اس کے مقابل دھڑے بندی اور کثرت پسندی مادہ پرستی و کفر کی خصوصیات ہیں۔ امام خمینی کا یہ کتنا بہترین قول کہ ’’اختلاف و تفرقہ شیطان کی طرف سے ہے اور اتحاد و وحدت کلمہ رحمان کی طرف سے ‘‘۔تاریخ اس بات کو ھرگز فراموش نہیں کرسکتی کہ ایک مرد خدا نے خالی ہاتھوں صرف خدا پر بھروسہ کرتے ہوے اتحاد کی آواز بلند کی اور مومنین ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئےان کے بتائے ہوئےراستے پر قائم رہے ۔
سوم: استکباری طاقتوں سے ناوابستگی اور خود مختاری۔ امام خمینیؒ اور آپ کی ٹیم نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جو خارجہ پالیسی مرتب کی اُس سے واضح ہوگیا کہ’’ لا شرقیہ ولا غربیہ،اسلامیہ اسلامیہ‘‘ کے نعرے سے مراد کسی مشرقی یا مغربی بلاک کی اجارہ داری، تسلط اور ڈکیٹیشن کو قبول نہ کرنا ہے۔ امام خمینیؒ کے نظریات میں خارجہ پالیسی کے کچھ معیارات تھے، اُس میں صرف ملکی مفادات کو ترجیح حاصل نہ تھی بلکہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی اقدار کو بھی پیش نظر رکھا گیا تھا۔
چہارم: ولایت فقیہ۔ ولایت فقیہ شیعہ فقہ میں ایک نظریہ ہے جس کے مطابق عصرِ غیبت امام زمانہؑ میں حکومت جامع الشرائط فقیہ کے ذمہ ہے۔ تیرہویں صدی ہجری کے مرجع تقلید، ملا احمد نراقی پہلے فقیہ سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے ولایت فقیہ کو ایک فقہی مسئلے کی شکل میں پیش کیا اور اس کو پروان چڑھایا۔ ولایت فقیہ کے نظریے کے مطابق اسلامی معاشرے کے تمام اختیارات ولی فقیہ کو حاصل ہیں۔ شیخ جعفر کاشف الغطاء، صاحب جواہر اور امام خمینی اس نظرئے کے طرفداروں میں سے ہیں جبکہ شیخ انصاری، آخوند خراسانی اور آیت‌اللہ خوئی اس نظرئے کے مخالفوں میں سے شمار ہوتے ہیں۔فقہاء کی تعریف کے مطابق ولایت فقیہ، سرپرستی، دوسروں کے امور میں جامع الشرائط مجتہد کا تسلط و تصرف، اور دوسرے الفاظ میں اسلامی احکام کے نفاذ کے لئے اسلامی معاشرے کی مدیریت اور اسلامی اقدار کو معاشرے میں نافذ کرنا ہے۔شیعہ فقہ میں ولایت فقیہ ایک نظریہ ہے جس کے مطابق امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کے دوران اسلامی معاشرے کی حکومت، جامع الشرائط فقیہ کے ذمے ہوگی۔ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ولایت فقیہ کو اس ملک کے آئین میں شامل کیا گیا۔ اس آئین کے آرٹیکل 57 میں یوں ذکر ہوا ہے کہ ’’جمہوری اسلامی ایران میں موجود حاکم ادارے، عدلیہ، مقننہ اور مجریہ، ولایت مطلقہ امر اور امامت کے زیر سائے اس قانون کے مطابق عمل کریں گے‘‘۔ایران میںحضرت امام خمینی اور ان کے بعد رہبر معظم سید علی خامنہ ای ولی فقیہ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔
آخر کلام میں ہم حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی پاکیزہ روح کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دلی خوشی محسوس کر رہے ہیں اور شکر گزار ہیں کہ آج اپنے ایک قدیم جگری دوست حجۃ الاسلام والمسلمین آغا سید حسن الموسوی الصفوی دام ظلہ کی زیر قیادت انجمن شرعی شیعیان جموں و کشمیر دار المصطفیٰ ،شریعت آباد ،بڈگام ،سرینگر کشمیر (انڈیا)کی دعوت پر ۳؍۴؍۵؍جون ۲۰۲۲ء بروز جمعہ و شنبہ و یکشنبہ امام راحل کی ۳۳ویں برسی کی مناسبت سے منعقد سہ روزہ عظیم الشان پروگرام میں شرکت کی سعادت میسر ہوئی۔ اور ان پروگراموں میں مومنین جموں و کشمیر کی بھاری تعداد میں موجودگی اس بات کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ امام خمینی ؒ ایسے کتنے ہی روحانی علمائے دین مرنے کے بعد بھی زندہ ہیں۔حدیث گواہ ہیں :اَلْعُلَمَاءُ بَاقُونَ مَا بَقِيَ اَللَّيْلُ وَ اَلنَّہَارُ (مولا علیؑ) یعنی علماء باقی رہنے والے ہیں جب تک لیل و نہار باقی ہیں۔العلماء حی و ان کان میتاً۔یعنی علماء زندہ ہیں اگرچہ مردہ ہوں۔

فقط والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

عقیدت کیش

احقر الزمن ابن حسن املوی واعظ
بانی و سرپرست حسن اسلامک ریسرچ سینٹر
حسن منزل ،محلّہ محمود پورہ،املو مبارکپور،ضلع اؑظم گڑھ(اتر پردیش) انڈیا

۴؍جون ۲۰۲۲ء

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .