۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
علامہ رمضان توقیر

حوزہ/ رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید روح اللہ الموسوی الامام الخمینی رحمتہ اللہ علیہ نے بہترین و بروقت فیصلوں کے ذریعے اور دوراندیشانہ پالیسیوں کے ساتھ انقلاب کی بنیاد رکھی اس بنیاد میں جہاں شہداء کا پاکیزہ لہو شامل تھا وہاں قائدین کی بصیرت اور حکمت عملی بھی تھی جس نے دنیا کے تجزیہ نگاروں اور مخالفین کے تمام تر اندازوں اور دعووں کو غلط ثابت کردیا۔

تحریر: حجت الاسلام محمد رمضان توقیر

حوزہ نیوز ایجنسی ایران اور پاکستان کی ہمسائیگی میں موجود اسلامی ملک افغانستان میں گذشتہ نصف صدی میں دوسری مرتبہ انقلاب کے ذریعے حکومت تبدیل ہوئی ہے اور ملک میں اسلامی حکومت کے نفاذ کے لیے تگ و دو شروع کی جا چکی ہے۔ اس سے قبل نوے کی دہائی میں بھی کم و بیش انہی لوگوں نے ہی پیش قدمی کے ذریعے ملک فتح کیا اور اقتدار پر براجمان ہوئے لیکن یہ انداز دیرپا اور موثر ثابت نہیں ہو سکا اور چند سال ہی قائم رہ پانے کے بعد اندرونی کمزوریوں اور بیرونی مداخلت کے بعد اسلامی حکومت کے خواب دیکھنے والوں کو اقتدار سے نہ صرف محروم کردیا گیا بلکہ صاحبان ِ اقتدار کو اگلی دو دہائیوں کے لیے قید و بند اور قتل و انتقام کی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا۔ گذشتہ سال ایک بار پھر یہی حضرات افغانستان پر پیش قدمی کے ذریعے ظاہری غلبہ حاصل کرچکے ہیں اگرچہ اس بار ان کے انداز اور پالیسیاں ماضی کے مقابلے میں نرم و معتدل اور عالمی تقاضوں کے مطابق اور پرامن ہیں اس کے باوجود ایک سال سے اسی کوشش میں ہیں کہ اسلامی و عالمی دنیا ان کی حکومت کو تسلیم کرلے تاکہ افغانستان کی محرومیاں دور ہوں اور دنیا کے دیگر ممالک کی طرح افغانستان بھی ترقی کی طرف بڑھ سکے۔ اس لمحے تک آثار تو بہتر نظر نہیں آرہے البتہ ہمسایہ اور دوست ممالک بالخصوص ایران ' روس اور پاکستان کی کوششیں اگر بارآور ثابت ہوئیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت کچھ سال اقتدار پر موجود رہے لیکن یہ انقلاب فی الحال طویل مدت گذارتا نظر نہیں آتا۔

اس تمہید کا مقصد ہمارے خطے اور پورے دنیا میں گذشتہ ایک صدی میں آنے والے انقلابات سے اسلامی جمہوری ایران میں رونما ہونے والے انقلاب کا تقابل ہے۔ تینتالیس برس کا طویل عرصہ اس بات کا بذات ِ خود شاہد بن چکا ہے کہ رہبر ِ انقلاب ِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید روح اللہ الموسوی الامام الخمینی رحمتہ اللہ علیہ نے بہترین و بروقت فیصلوں کے ذریعے اور دوراندیشانہ پالیسیوں کے ساتھ انقلاب کی بنیاد رکھی اس بنیاد میں جہاں شہداء کا پاکیزہ لہو شامل تھا وہاں قائدین کی بصیرت اور حکمت عملی بھی تھی جس نے دنیا کے تجزیہ نگاروں اور مخالفین کے تمام تر اندازوں اور دعووں کو غلط ثابت کردیا جو انقلاب کو چند دنوں کا مہمان قرار دے رہے تھے۔ افغانستان کے موجودہ حکومتی سیٹ اپ کے انداز ' طریقہ کار اور پالیسیوں سے لگتا ہے کہ انہوں نے بھی انقلاب ِ اسلامی ایران سے استفادہ کیا ہے اور اپنے اندر متعدد تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ ان دنوں ایران اور افغانستان کے تعلقات بھی یہی بتا رہے ہیں کہ دونوں اسلامی ہمسایہ ممالک باہمی تعلقات کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے جار ہے ہیں۔ اگر روابط کا یہ سلسلہ مستقبل میں بھی یونہی جاری رہا تو افغانستان جہاں ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا وہاں عالمی استعماری طاقتوں کی سازشوں کو بھی ناکامی حاصل ہوگی جو مسلمان ممالک اور اسلامی مسالک کو باہم دست و گریباں کرکے اپنے مکروہ عزائم پورے کرتی رہتی ہیں۔

وطن ِ عزیز پاکستان بھی عوامی انقلاب اور اسلامی فکر کے سبب معرض وجود میں آیا تھا۔ ایران اور پاکستان میں بے شمار مشترک اقدار میں ایک یہ قدر بھی شامل تھی کہ دونوں کے ہاں مذہبی سوچ رکھنے والے مسلمانوں نے انقلاب لایا اور طویل عرصے سے یہ انقلابات نہ صرف موجود و قائم ہیں بلکہ روز بروز توانا ہو رہے ہیں۔ عالمی طاقتوں نے متعدد بار کوششیں کی ہیں کہ ایران و پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کریں اور انہیں باہم اتنا دور کریں کہ وہ جنگ پر آمادہ ہوجائیں۔ لیکن دونوں ممالک کی مذہبی اور سیاسی قیادت نے یہ سازشیں ہمیشہ اور ہردور میں ناکام بنائی ہیں۔ عالمی سطح ہر بننے والے اتحادوں اور جوڑ توڑ کے دوران پاکستان اور ایران بعض اوقات الگ الگ کیمپوں میں موجود رہے ہیں لیکن پھر بھی باہمی تعلقات کو خرابی کی ایسی سطح پر نہیں لے گئے جہاں تصادم پیدا ہو۔

ایران و پاکستان آج بھی عالمی طاقتوں کی آنکھ کا کانٹا ہیں ۔پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا اور ایران کا اسلامی طاقت ہونا دشمن طاقت کو کھٹکتا ہے۔ صرف عالمی طاقتیں ہی نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی کاسہ لیسی کرنے والے بعض نام نہاد اسلامی ممالک بھی ان دو ممالک کی طاقت اور صلاحیت سے خائف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی دشمنوں کے ساتھ یہ اندرونی دشمن بھی اسی تاک میں ہوتے ہیں کہ کب ایران اور پاکستان کو زک پہنچایا جائے اور ان کے اتحاد اور تعلق کو شکستہ کیا جائے۔ اقتدار کے ہوس میں مبتلا اور غلبے کی خواہش کے اسیر یہ ممالک اغیار کے ساتھ مل کر پاکستان اور ایران کو کمزور کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔

ہم دونوں ہمسایہ ممالک عالمی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ عالمی منظر نامہ ہر لمحے ہمارے پیش نظر رہتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشیں اکثر ہماری سامنے ہوتی ہیں۔ اس لئے ہم دونوں کی ذمہ داریوں میں بھی دیگران کے مقابلے میں بہت زیادہ فرق ہے۔ تاریخ یہی بتاتی ہیں کہ ایران نے پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کے اکثر فیصلوں اور پالیسیوں کی حمایت کی ہے بالخصوص عالمی اداروں میں جب بھی پاکستان نے اپنے مقدمات پیش کئے تو ایران نے کبھی پاکستان کی مخالفت نہیں کی بالخصوص مسئلہ کشمیر اور پاکستان پر اقتصادی و عالمی پابندیوں کے معاملے میں ایران ہمارے شانہ بشانہ رہتا ہے۔ اسی طرح عالم ِ اسلام کے درمیان اتحاد و وحدت کے لیے بھی پاکستان کے ساتھ ہم قدم رہتا ہے۔ اگرچہ ماضی اور حال میں پاکستان اپنی خاص پالیسیوں اور خودساختہ مجبوریوں کی وجہ سے استعماری طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہوجاتا ہے یا ان کے مقاصد کی تکمیل میں اپنے ہمسایہ اسلامی ممالک کے ساتھ کشیدگی پیدا کر لیتا ہے لیکن ایران نے اس کے باوجود بھی پاکستان کے ساتھ تلخی یا کشیدگی پر مبنی اقدامات نہیں کئے بلکہ کوشش کی ہے کہ پاکستان کو استعماری طاقتوں کی گود میں جانے سے روکا جائے اور خطے کے ساتھ اسلامی وحدت کو ترجیح پر رکھا جائے۔

موجودہ عالمی اور مقامی حالات اس بات کے متقاضی ہیں ایران پاکستان کے درمیان مثالی اور مزید گہرے تعلقات قائم ہوں۔ دونوں ممالک مل کر بڑی سے بڑی طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں۔ پاکستان نے عالمی اداروں کے شکنجے میں پھنس کر جس طرح ایران اور چین سے دوری اختیار کی ہوئی ہے۔ یہ دوری چین اور ایران سے زیادہ پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے۔ اقتصادی ماہرین کے ساتھ ساتھ پاکستان کا عام شہری اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ اگر تجارتی میدان میں ایران اور پاکستان باہمی تعلق کو فروغ دیں تو پاکستان کی غربت ختم ہو سکتی ہے۔ چین کے ساتھ اگرچہ پاکستان کی اقتصادی تعلقات بہتر ہیں لیکن مثالی نہیں ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ایران اور چین کے ساتھ معاہدے کرنے سے پہلے پاکستان کو عالمی اداروں ' امریکہ اور بعض عربوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں غربت اور مہنگائی کے بڑے اسباب میں سے بجلی ' پٹرول ڈیزل اور گیس کا مہنگا ہونا ہے۔ خوش قسمتی سے ان تینوں اشیاء کے لیے ایران پاکستان کی بہت زیادہ مدد کرسکتا ہے ماضی میں ہماری حکومتوں نے اول تو عالمی طاقتوں کے خوف میں آکر ایران سے تجارتی و اقتصادی معاہدے ہی نہیں کئے اور اگر کئے بھی ہیں تو انہیں آگے نہیں بڑھایا اور بیچ راستے کے چھوڑ دیا۔ جس سے ایران کو اربوں کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس کی بڑی مثال گیس پائپ لائن کی تنصیب ہے۔ بہر حال اب بھی وقت ہے کہ دونوں ممالک نئے سرے سے تعلقات کا آغاز کریں۔ سابقہ ملتوی شدہ معاہدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا آغاز کریں اور تازہ صورتحال کے تناظر میں نئے معاہدے کریں۔ دور دور سے مہنگی چیزیں لینے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ سستی ٹریڈ کریں۔ ایک دوسرے کا اقتصادی اور معیشتی سہارا بنیں۔ دونوں ممالک کے عوام کو مشکلات سے نکالیں۔ اسی مہنگائی نے ہمارے ملک میں بدامنی کے راستے کھولے ہوئے ہیں جس سے دشمن فائدہ اٹھا کر ہمیں قتل و غارت کی طرف دھکیلتا ہے۔ ایران و پاکستان دنیا میں موجود مذہبی اور مسلکی تنازعات کو مل کر حل کر سکتے ہیں اس سے بڑی اور کوئی خدمت ہی نہیں ہے۔ اور سب سے بڑی تجویز یہ ہے کہ دونوں ممالک تعلق اور محبت کے اس سفر میں عالمی طاقتوں اور ان کے کاسہ لیس عرب و غیر عرب ممالک کی مخالفت کو خاطر میں نہ لائیں۔ انشاء اللہ یہ ساری طاقتیں ایران و پاکستان کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوں گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .