۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
عشرہ فجر

حوزہ/ مولانا شمع محمد نے دہ فجر انقلاب اسلامی کے سلسلے سے کہا کہ ایک دینی رہبر کے لئے جہاں دیگر شرطیں ضروری ہیں وہیں پہ جرآت شہامت اور علم کی بھی ضرورت ہے اسلئے امام خمینیؒ پہلے مرجع عظیم الشان بنے پھر رہبر کبیر ایران؟

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، زہرامنزل، ویشال سیٹی لکھنئو میں سہ شنبہ ۷بجے شب، ۲فروری ۲۰۲۱ عیسوی میں دہ فجر انقلاب اسلامی کا پروگرام منایا جارہا ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی نے بتایا کہ یہ پروگرام قرآن وعترت فاونڈیشن علمی مرکز قم ایران کی جانب سے اس سرزمین پر منعقد ہو رہا ہے، یقینا امام خمینیؒ کے عشاق کے لئے بیحدخوشی کامقام ہے۔

اس انقلابی پروگرام میں تلاوت قرآن مجید کے لئے سید فیضان علی حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای،بہار کو دعوت دی گئی اور یادگار خطیب اکبر یعسوب عباس صاحب کو مہمان خصوصی کے عنوان سے، جنہوں نے امام خمینیؒ کے اس پروگرام کو فعال نیک سے تعبیر فرمایا۔ اس پروگرام کے ملک کے مایہ ناز علماء کرام اور شعراۓ انقلاب فاطمی تشریف لارہے ہیں جو سامعین کے سامنےانقلابی اشعار پیش کرینگے۔  اس پروگرام کی خصوصیت یہ ہے کہ تلاوت قرآن مجید کے بعد پروگرام کا سلسلہ آگے بڑھے گا، جسمیں انقلابی تحلیگر کی تقاریر، انقلابی شعراء کے اشعار کے علاوہ مقالہ خوانی پر بھی خاص خیال کیا جارہا ہے، جو عموما اس طرح کے پروگرام میں دیکھنے کوکم ملتا ہے۔

مولانا موصوف نے کہا کہ سچی بات تویہ ہے امام خمینیؒ کی مذکورہ زحمات کو دنیا کا ہر بشر سننے کے لئے ہمہ تن ذوق سماعت کا دریا لئے بیٹھا ہے اب یہ امتیاز خمینیؒ دانشمندوں کو ہےکہ لوگوں کی تشنگی بجھا کر انہیں سیراب کریں۔ 

مولانا شمع محمد نے دہ فجر انقلاب اسلامی کے سلسلے سے کہا کہ ایک دینی رہبر کے لئے جہاں دیگر شرطیں ضروری ہیں وہیں پہ جرآت شہامت اور علم کی بھی ضرورت ہے اسلئے امام خمینیؒ پہلے مرجع عظیم الشان بنے پھر رہبر کبیر ایران؟کیونکہ آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردی ؒ کی رحلت کے بعد ۔ آپؒ کی گرانقدر خدمات اور علمی شخصیت ایرانی معاشرے میں بعنوان مرجعیت سب سے زیادہ عوامی اعتماد کی پناہگاہ کی حیثیت حاصل ہونے میں معاون و مددگار ثابت ہوئی تهی، آپؒ کی اپنی شخصیت حکومت کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی، آپ اپنی مرجعییت کی ترویج کے سلسلے سے اپنے عقیدتمندوں کو سختی سے منع کرتےتھے، درحالیکہ آپؒ نے آیت اللہ بروجردیؒ کی رحلت سے پانچ سال قبل فقہ کی مشہور کتاب عروۃ الوثقیٰ کے تمام ابواب پر شرح لکھنے کا کام مکمل کیا تھا، اور فقہی رسالہ عملیہ کے طور پر آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی کی کتاب وسیلۃ النجاۃ پر بھی شرح لکھی تھی، آپ نے کئی سال قبل شرح چہل حدیث سرالصلاۃ اور آداب نماز جیسی کتابیں تصنیف کی تھیں جنمیں دنیاوی منصب کو تحقیر اور پست اور اخروی منازل کے اخلاقی اور عرفانی موضوعات پر بحث کی ہے، شاہی حکومت نے امریکہ کے اشارے پر آیت اللہ بروجردی ؒ کی رحلت کے بعد تیزی سے سرگرم عمل ہوئی یہاں تک اس نے مرجعیت کو بھی ٹھیس پہچانا چاہا، مگر انکی کوششیں ناکام ہوگئیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ سبھی کو ۸ اکتوبر ۱۹۶۲عیسوی کا خواب یاد ہے جبکہ امیر اسداللہ علم کی کابینہ نے ایک بل کی منظوری دی کہ حلف برداری قرآن سے نہ ہو، اور ووٹ دینے کاحق مرد سے چھنکر عورتوں کے حوالے کیا جائے؟  یعنی خواتین کو انتخابات میں حصّہ لینے کی آزادی دی گئی تهی، ایران اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا فروغ ہونا شاہی حکومت کی طرف سے اسرائیل کی حمایت، اور امریکہ کی پشت پناہی بھی ہدف تھا، مگر میرا سلام ہو بانی انقلاب اسلامی ایران کی اس جرآت کو جنہوں نے بل کی منظوری کی اطلاع ملتے ہی امام خمینیؒ نے قم اور تہران کےدیگر اکابر علماء کے ساتھ بھرپور مخالفت کا اعلان کیا۔

شاہ ایران کو کئی موقع پ ربے نقاب کرنے کے علاوہ علماۓ اعلام اور دینی مدارس کی مضبوط ذمہ داری کا احساس دلانے میں امام خمینیؒ کا کردار بہت ہی اہم اور مؤثر تھا، امام خمینیؒ کا اسداللہ علم کے نام علماء کی حمایت پر احتجاجی خطوط سے علماء کی حمایت کی ایک عجب لہر پیدا ہوئی۔

مولانا موصوف نے مزید کہا کہ امام خمینیؒ نے کئی بار شاہ اور وزیر اعظم کے خلاف ٹیلگراموں کا لہجہ بہت تیز اور تند لہجہ اختیار کیا۔ آپ نے ایک ٹیلگرام میں اسطرح کہا: میں ایک بار پھر تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ خداوند متعال اور آئین کی پیروی کے لئے اپنا سرخم کر، قرآن مجید کی بے احترامی، علمائے اعلام پر سختیاں اور دین و احکام کی خلاف ورزی کے سخت نتائج سے خوف کھاؤ، جان بوجھکر کسی وجہ کے بغی رملک کو خطرات سے دچار سے پرہیز کرو، ورنہ علمائے اسلام تمہارے خلاف بولنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ ابتدا میں شاہی حکومت نے علمائے کرام کو دھمکیاں دیں اور ان کے خلاف غلط پروپیگنڈے شروع کئے اور دھمکیاں دیتے ہوئے یہ کہتے ملا کہ حکومت اپنے مجوزہ اصلاحی پروگرام کو بند نہیں کرے گی بلکہ ہرطرح کی پاندیاں لگانے پرتیار ہے لیکن جب عوامی تحریک روز بروز مضبوط ہوتی گئی، تہران، قم اور بعض دوسرے شہروں میں بازار بندکئے گئے، عوام، علماء کی حمایت میں مسجدوں میں جمع ہونے لگی تو اس واقعے کے ڈیڑھ ماہ بعد حکومت کے موقف میں معمولی تبدیلیاں آئی، شاہ اور وزیراعظم کے نام علماء کے خطوط کےجواب میں ہمدردیاں اور توجہ حاصل کرنے کی سعی کی گئی، تو ایسے موقع پرحوزۂ علمیہ کے بعض علماء نے حکومت کے اس موقف کومان کر تحریک کے خاتمے کا اعلان کرنا چاہا کہ امام خمینیؒ  نے اس کی سخت مخالفت کی اور آواز بلندکیں کہ جو راستہ میں نے طے کیا اگر کوئی اس پر خاموش رہا تو وہ اللہ تعالی کے سامنے جوابدھی اور اس دنیا میں ذلیل و خوار ہوکر رہے گا۔ ‘‘ بیان میں امام ؒ نے حکومت کے مجلس شورائے کے اراکین کو للکارتے ہوئے لکھا تھا کہ: ’’ مسلمان قوم اور علماء اسلام زندہ جاوید ہیں وہ ہر اس غدار کا ہاتھ کاٹ پھینکیں گے جو اسلام کے اصول اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائے گا۔

مولانا نے کہا کہ عزم محکم تھا تو اسی سبب بالآخر شاہی حکومت نے شکست تسلیم کرلی اور ۲۸ نومبر 1962کو سرکاری طور پر حکومتی کابینہ نے منظور شدہ بل منسوخ کر کے اس کی اطلاع تہران اور قم میں علماء اور مراجع دین کو دے دی، مگر علمائے قم کے اجلاس میں امام خمینیؒ نے ایک بار پھر دو ٹوک الفاظ میں بند کمرے میں بیٹھ کر بل کو منسوخ کرنے والے سے کہا کہ جب تک بل کی منسوخی کی خبر ذرائع ابلاغ میں نشر نہیں کی جائیگی اس وقت تک تحریک جاری رہے گی۔ پھر کیا تھا ناچار اور بے بس اسداللہ علم ریڈیو پر اعلان کرتے ملا۔ امام خمینیؒ کے چاہنے والوں نے اس عظیم کامیابی کا جشن منایا ۔

امام خمینیؒ کا یہ پیغام آج بھی برق کی مانند دنیائے بشریت میں گونجتاہے؛ یاد رکھنا جس کا رابطہ اللہ تعالی سے ہو وہ شکست نہیں کھاسکتا، جسکا ہدف دنیا ہو شکست اسکی ہوتی ہے اور ناکامی اسے ملتی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .