۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای ،بھیک پور میں ایک یادگارجشن امام خیمنیؒ 

حوزہ/ حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای ،بھیک پور،بہار کی جانب سے ایک عظیم الشان پروگرام اس منطقے میں ہوا جو امام خمینیؒ کی یوم پیدایش سے مخصوص تھا،اس موقع پر فرزندان امام خمینیؒ نے عظیم خوشی کا اظہار کیا۔         

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای ،بھیک پور،بہار کی جانب سے ایک عظیم الشان پروگرام اس منطقے میں ہوا جو امام خمینیؒ کی یوم پیدایش سے مخصوص تھا،اس موقع پر فرزندان امام خمینیؒ نے عظیم خوشی کا اظہار کیا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین سید شمع محمد رضوی نے اس سلسلے سے بتایا کہ نوجوان اور جوانوں کو سوچنا چاہیئے،امام خمینیؒ ہر دور اور ہمہ وقت کی ضرورت ہیں،جنہیں علمی،اخلاقی،سماجی لحاظ سے اپنے دل میں بسانا بہت ہی ضروری ہے،آپ نے ہرمحاذ پرعظیم کارنامے انجام دیئے،امامؒ کے اعتقادی نظرایت یعنی!تربیت،گهریلو ماحول پوری زندگی کےسیاسی اور معاشرتی میدانوں میں موجزن رہا ہے، آپ نے دور جوانی سے ہی جدوجہد شروع کی جو آپ کے روحانی اور علمی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ایران اور عالم اسلام کےسیاسی اور معاشرتی حا لات کے مطابق مختلف صورتوں میں جاری رہی یہاں تک کہ (۶۲ ۔۱۹۶۱ ء )میں علاقائی اور صوبائی کونسلوں کے قوانین کے نتیجے میں رونما ہونے والے واقعات نے آپ کیلئے علماء کرام کی تحریک کی قیادت میں اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ، جون ۱۹۶۳ ء کو شروع ہونے والی علماء اور عوام کی تحریک ، دو خصو صیات کے ساتهھ ایرانی قوم کی جد وجہد کو نئے مرحلے تک پہنچانے کاباعث بنی جوآ گے چل کر انقلاب اسلامی کے نام سے دنیا میں پہچانےجانے لگی وہ دو خصو صیات یہ ہیں: امام خمینیؒ کی واحد قیادت اور پورے ایران میں تحریک کےمحرکات ،نعروں اور اسکے مقاصد کا اسلامی ہونا۔

انہوں نے مزید کہا کہ امام خمینیؒنےاس دورمیں آنکھھ کهولی جب ایران اپنی تاریخ کےمشکل ترین مراحل سےگزررہا تها،یعنی آئین تحریک (نہضت مشروطہ)قاجاری دربار میں موجود انگریزوں کے ایجنٹوں کی سازشوں اور مخالفتوں کے علاوہ اندرونی اختلافات اور مغرب پرست دانشوروں کے ایک گروہ کی غداری کی وجہ سے راستے سے منحرف ہو چکی تهی ۔ اس تحریک کی ابتدامیں علماء کرام نے ہر اول دستے کا کردار اداکیا تها لیکن مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں میدان سے نکال کر ایک بار پهر آ مریت مسلط کی گئی۔

بانی حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خامنہ ای،بھیک پور،بہار نے کہا کہ قاجاری بادشاہوںکی قبائلی طبیعت کےعلاوہ امور مملکت کی باگ ڈور سنبهالنے والے لوگوں کی کمزوری اورنااہلی کی وجہ سے ایران شدید اقتصادی اور معاشرتی مسائل کا شکار ہو چکا تها جس کی وجہ سے سرداروں اور بدعنوان لوگوں کو عوام کے امن و امان سے میں خلل ڈالنے کا کهلم کهلا موقع مل گیا تها۔

ان حالات میں ایران کے شہروں اور دوسرے علاقوں میں عوام کا واحد قابل اعتماد طبقہ علماء کرام کا طبقہ تها،چنانچہ اس سے پہلے بهی اشارہ کیا جاچکا ہےکہ امام خمینیؒنےاپنےوالد گرامی کو حکومت وقت کے پٹهو سرداروں کےہاتهوں اپنے اورعلاقےکےعوام کےمسلمہ حقوق کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوتے دیکها ہے بنیادی طور پر خمینیؒخاندان کو ہجرت اور جہاد سے دیرینہ الفت تهی،امام خمینیؒپہلی عالمی جنگ کے بارے میں اپنے تاثرات بیان فرماتے ہیں،جبکہ آپ کی عمراس وقت صرف بارہ سال تهی : ’’مجهے دونوں عالمی جنگوں کی یاد ہے،اگر چہ (اس وقت) میں چهوٹا تها لیکن مدرسہ جا تا تها،میں روسی فو جیوں کو خمین میں قائم انکی بیرک میں دیکهتارہتا تها،پہلی عالمی جنگ کےدوران ہمارا(ملک) لوٹ مار کا شکار ہو گیا تها۔

حجۃ الاسلام والمسلمین سید شمع محمدر ضوی نےمزید کہا کہ حضرت امام خمینیؒایک اورمقام پربعض ایسے سرداروں اورظالم افراد کا نام لیکر جو عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو سےکهیلتے تهے فرماتے ہیں:میں بچپن سے ہی خدمات میں مصروف رہا ہوںجبکہ(ظالموں )کےحملوں کی زد میں ہوتےتهے،میں اگرچہ بچہ تها،مگرعلاقے کے لوٹیروں پرگہری نظررکھتاتھااسی تجربے کی وجہ سے ہمیں کامیابی ملتی گئی۔

آخر میں کہا کہ ایک اور جگہ پر آپ فرماتے ہیں: جس علاقے میں ہم رہتے تهے ، یعنی خمین میں ہم مورچہ بندی کرتے تهے ، میرے پاس بهی حفاظت کی تمام چیزیں تهیں اگرچہ میں بچہ تها،ہم موچوں میں جاتے اوران شرپسند افراد سے(مقابلہ کرتے تهے )ان حالات میں ایران کا طبقۂ علما ئے اسلام کے دفاع اور اپنے وجود کے تحفظ کی خاطر میدان عمل میں آیا جو نہضت مشروطہ (آئینی تحریک)کے واقعات کے بعد ایک طرف سے حکومت وقت اور انگریزی ایجنٹوں کے پے درپے حملوں اور دوسری جانب سے بظاہر روشن خیال اور مغرب کے شیفتہ و دلدادہ دانشوروں کی معاندانہ کاروائیوں کی زد میں تها۔

اس موقع پر حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سبط حیدر نے اس جشن میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ جوانوں کو اس تاریخ کو بھی یاد کرنی چاہیئے آیت اللہ العظمیٰ حائریؒ قم کے معاصر علماء کی دعوت پر اراک سےقم کی طرف روانہ ہوئے،اسکے تهوڑے ہی عرصے کے بعد امام خمینیؒ بهی قم آئے جنہوں نےخمین اور اراک کے حوزہ ہائے علمیہ میں مقدماتی علوم اورسطحیات (متون)کی تعلیم مکمل کرلی تهی،امام ؒ نےقم کی نوبنیاد درسگاہ کو استحکام بخشنے کے لئے فعال کردارادا کیااور دیکهتے ہی دیکهتے آپ ؒکا عرفان وسلوک،فلسفہ،فقہ اوراصول فقہ کےشعبوں میں اس حوزۂ علمیہ کے بلند پایہ فضلا میں شمار ہونے لگا۔

چنانچہ اس سےپہلے کہاگیا علمائےکرام اوردینی مرجعیت کےاعلیٰ مقاصد کا تحفظ ہی اس دورکی سب سے اہم ضرورت تهی،جو رضاخان پہلوی اوراسکےبیٹے(معزول شاہ ا یران ) کی علماء مخالف پالیسیوں اور دیگرمذموم عزائم کو ناکام بناسکتا تها ۔ اسی لئے روز مرہ حالات و واقعات سے نمٹنے کے سلسلے میں حوزہ ہائے علمیہ اور مرجع تقلید کے رویوں اور ان معاملات میں علمائے کرام کے کردار سے متعلق بعض امور میں آیۃ اللہ العظمیٰ حائری ؒ اور بعد میں آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردیؒ کے ساتهھ اختلاف رائے رکهنے کے باوجود امام خمینیؒ ان دونوں بزرگوں کی قیادت کے دور میں مرجعیت کے شدید ترین حامی کی حیثیت سے ان کا ساتهھ دیتے رہے۔

امام ؒ کو سیاسی اور معاشرتی مسائل کے حل میں خاص دلچسپی تهی ۔ رضا خان نے اپنی بادشاہت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے بعد ابتدائی سالوں میں ہی ایرانی معاشرے سے اسلامی ثقافت کے اثرات کو مٹانے کیلئے وسیع منصوبہ بنائے۔

منعقدہ جشن سے حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید حسین رضوی نےاس جشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ کازمانہ بھی بھی بہت سخت اوردشورزمانہ تھامگرآپ حضرت حجتعجلکی پناہگاہ میں رہکر کامیابی کی منزلوں کوطےکرتے رہے۔

علمائے کرام کو مختلف طریقوں سے بےجا تنگ کرنےکےساتھھ ساتهھ سرکاری احکامات کے ذریعےمجالس عزاداری اورمذہبی تقریروں پرپابندی لگائی گئی مدرسوں میں قرآن مجید اور دینی مسائل و احکام کی تعیم اور نماز جماعت کو ممنوع قرار دیا گیا اورخواتین کے سروں سے پردہ ہٹانے کا راگ لا پا گیا ، لیکن اس سے پہلے کہ رضا خان پہلوی اپنے مذموم عزائم کو وسیع پیمانوں پر عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوجائے ایران کے ذمہ دار علماء وہ پہلا طبقہ تها جس نے ان عزائم کے پس پردہ مقاصد کو بهانپتے ہوئے مخالفت میں صدائے احتجاج بلند کی ۔اصفہان کے متعہد علماء آ یۃ اللہ حاج آقا نور اللہ اصفہانی کی قیادت میں ۱۹۲۷ کو احتجاجی طور پر اصفہان سے قم کی طرف ہجرت کرنے کے بعد یہاں دهرنا دے کر بیٹهھ گئےاوردوسرے شہروں کےعلماء بهی اس مہم میں شریک ہوئے،قم میں علمائےکرام کا دهرنا ۲۱ شہریور سے ۲۵ دسمبر ۱۹۲۷ تک ۱۰۵ دن جاری رہا جس کے نتیجے میں بظاہر رضاخان پسپا ہو گیا اور اس وقت کے وزیر اعظم (مخبر السلطنہ) نے دهرنا دینے وا لوں کے مطالبات کوپورا کرنے کی ذمہ داری لی ، رضاخان کے کارمندوں کے ہاتهوں دیماہ ۱۳۰۶ه ش میں اس تحریک کے قائد کی شہادت کے ساته عملی طور پر دهرنا دینے کی یہ مہم اختتام کو پہنچ گئی۔

یہ روداد روح اللہ خمینیؒ نام کے جوان ، باصلاحیت اور مجاہدانہ جذبے کے حامل طالب علم کے لئے رضاخان پہلوی کے خلاف علمائے کرام کے مقابلہ و جہاد کے مسائل کی نوعیت سے آگاہی حاصل کرنے کا بہترین موقع فراہم کرنے میں مدد و معاون ثابت ہوئی۔ دوسری جانب اس روداد سے چند ماہ قبل نوروز ۲۱ مارچ ۱۹۲۷ ء کے دن قم میں رضا خان کے ساته آیۃ اللہ بافقیؒ کے تنازعہ واختلاف کا واقعہ پیش آیا تها ، جس کی وجہ سے فوج کے ذریعے قم شہر کا محا صرہ کیا گیا اور شاہ کے ہاتهوں اس عالم دین کی پٹائی کے بعد شہررے کی طرف ان کی شہر بدری عمل میں آئی تهی۔

یہ سانحہ اور اس سے مشابہ دیگر حوادث ک ے علاوہ اس دور کی قانون ساز اسمبلی میں رونما ہونے والے حالات خاص طورپر نامور اور مجاہد عالم دین آیۃ اللہ سید حسن مدرس کی جد وجہد امام خمینیؒ کی حساس اورعزم و ولولے سے ما لامال روح پر اثر انداز ہوتی رہتی تهی۔

رضا خان پہلوی نے حوزہ علمیہ قم کے نظام کو درہم بر ہم کرنے کی غرض سے علمائے کرام سے سر کاری طوپر امتحان لینے کا فرمان جاری کیا! امام خمینیؒ اس حکم کی مخالفت کیلئے اٹھھ کهڑے ہوئے اور قم کے بعض نامور علماء کو آپ نے اس منصوبے کے پس پردہ عزائم سے خبردار کیا جو سادہ اندیشی کی بنا پر اس کاروائی کو ایک اصلاحی قدم قرار دے رہے تهے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس دور میں ایران کے علمائے کرام ، سرکاری ذرائع ابلاغ کی وسیع پروپیگنڈہ مہم ، نا گفتہ بہ حالات ، آپس کے تفرقہ و انتشار اور آئینی تحریک کے بعد مذہبی رہنماؤں کے طبقے کو پہنچنے والے صدمات کی وجہ سے گوشہ نشین ہونے پر مجبور ہوگئے تهے ، یہاں تک کہ عرفان و سلوک اور فلسفہ جیسے علوم کی تدریس و تعلیم جو ضمیروں کو جهنجوڑ نے کے ساتھھ روز مرہ مسائل اور عصری تقاضوں کو موضوع بحث بنانے کا ذریعہ سمجهی جاتی تهی ، بعض منحرف سوچ رکهنے والے،ٓرام طلب اور نام نہاد شریف(علماء )کی طرف سے متروک و مطرود قرار دے دی گئی تهی ، ان حالات میں امام ؒ پر فلسفہ عرفان اور اخلاقیات کے درس بند کرنے کیلئے دباؤ بڑه گیا ، لیکن آپ اپنا درس ایک خفیہ مقام پر منتقل کرکے شاگردوں کی فکری تربیت پر توجہ دیتے رہے ان کو ششوں کا نتیجہ علامہ شہید آیۃ اللہ مطہریؒ جیسی شخصیات کی تربیت کی صورت میں ملا۔ایرانی علمائے کرام اورعوام کی ثابت قدمی رنگ لائی ،رضا خان پہلوی اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کے باوجود ، اسلام کی مکمل تباہی ، پردہ ہٹاؤ مہم (کشف حجاب) اور دینی مراسم پر پابندی لگا نے کے اپنے مذموم عزائم میں بڑی حد تک ناکامی سے دچار ہونے کے سبب بہت سے معاملات میں اپنے ارادوں سے منصرف ہوا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .