۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا محمد مجتبیٰ حسین طاب ثراہ

حوزہ/ جامعہ ناظمیہ کی جامع معقول و منقول قابل فخر شخصیت جنہیں مرحوم لکھتےہوئے قلم کانپ رہا ہے جو بیک وقت مختلف علوم و فنون میں مہارت رکھتے تھے۔ کم گو کم سخن حلیم وبردبار بس مطلب بھر بات کرکے اپنےکام میں مصروف رہنےوالی ذات جن کا اصلی وطن گھوسی تھا۔

تحریر: مولانا ڈاکٹر شہوار حسین نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی جامعہ ناظمیہ کی جامع معقول و منقول قابل فخر شخصیت جنہیں مرحوم لکهتےہوئے قلم کانپ رہا ہے جو بیک وقت مختلف علوم و فنون میں مہارت رکهتے تهے۔ کم گو کم سخن حلیم وبردبار بس مطلب بهر بات کرکے اپنےکام میں مصروف رہنے والی ذات جن کا اصلی وطن گهوسی تها۔ جہاں آپ نے بروز جمعہ ۱۹۴۹ ء؁ میں سفر حیات کا آغاز کیا۔ والد ماجد مولانا غلام مرتضیٰ صاحب جامعہ ایمانیہ بنارس سے فارغ تهے اور وہیں تدریس بهی کرتے تهے۔ آپ کے بڑے ابّا مولانا غفور حسین صاحب نے جامعہ ناظمیہ لکهنؤ سے ضمیمہ ممتاز الافاضل کیا تها اور تحصیل کے دوران ہی ان کی وفات ہوگئی تهی۔ آپ کے دادا اس فرزند کی وفات سے بہت زیادہ متأثر تهے۔ مگر علم دین کے شوق کا یہ عالم تها کہ انہوں نے اپنے چهوٹے فرزند مولانا غلام مرتضی صاحب کو علم دین حاصل کرنے کے لئے آمادہ کیا اور ان کا داخلہ جامعہ ایمانیہ بنارس میں کرایا۔ جب ظفر الملت مولانا ظفر الحسن صاحب طاب ثراہ نجف اشرف سے تعلیم حاصل کرکے واپس تشریف لائے تو آپ کو مدرسہ باب العلم مبارک پور کا پرنسپل منتخب کیا گیا۔ مولانا ظفر الحسن صاحب قبلہ نے مولانا غلام مرتضیٰ صاحب سے فرمایا کہ آپ اس علاقے کے ہیں لہٰذا آپ باب العلم چلے جائیں اور وہاں خدمت انجام دیجئے۔ چنانچہ آپ مولاناظفر الحسن صاحب کے حکم پر مبارک پور تشریف لے گئے اور خدمت دین میں مصروف ہوئے۔ اس سلسلےمیں آپ نے مدرسہ حسینیہ قائم کیا۔

استاد محترم مولانامجتبیٰ حسین صاحب نے ابتدایی تعلیم وہیں حاصل کی اس کے بعد والد ماجد نے آپ کا داخلہ جامعہ ایمانیہ بنارس میں کرایا جہاں آپ نے مولانا ظفر الحسن صاحب، مولانا احمد علی صاحب، مولانا محمد فضل صاحب جیسے اساتذہ سے کسب علم کیا پهر لکهنؤ روانہ ہوئے جہاں آپ نے جامعہ ناظمیہ میں داخلہ لیا اس وقت سرکار مفتی اعظم احمد علی صاحب کی مسند درس بچه‌ی ہوئی تهی طلاب بڑی تعداد میں جوق در جوق آرہے تهے اور اس منبع فیوض سے فیضیاب ہورہے تهے۔ مدرسہ جید اکابرین سے چهلک رہا تها لہٰذا آپ نے اس زرین دور سے فائدہ اٹهایا اور مولانا حکیم محمد اطہر صاحب، مولانا مرتضیٰ نقوی صاحب، مولانا رسول احمد صاحب، مولانا محمد حسنین نجفی صاحب، منولانا سید محمد شاکر صاحب طاب ثراہم جیسے اکابرین سے کسب فیض کرکے نحو، صرف، منطق، فلسفہ، فقہ اور اصول میں مہارت حاصل کی ۔ مولانا حکیم اطہر صاحب سے علم طب پڑه کر کافی حد تک علم طب کی معلومات میں اضافہ کیا آپ نے دسمبر ۱۹۷۱ ء؁ میں ممتاز الافاضل کی سند حاصل کی اور یکم جنوری ۱۹۷۲ ء؁ سے جامعہ ناظمیہ میں تدریس کرنےلگے آپ نے اس ذمہ داری کو اس خوبی سے انجام دیا کہ جلد ہی آپ کا شمار محنتی اور جیّد اساتذہ میں ہونے لگا۔ آپ کا مخصوص انداز تدریس تها آپ کی کوشش یہ رہتی تهی کہ مطالب کو آسان کرکے طلاب کے سامنے پیش کیا جائے پہلے آپ درس کا خلاصہ بیان کرتے تهے پهر مطالب کو متن سے منطبق کراتے تهے اس طرح سخت‌ترین مطالب ذہن نشین ہوجاتے تهے راقم کو بهی آپ سےشرف تلمذ حاصل رہا۔

آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے جو مختلف مقامات پر خدمات دین انجام دینے میں مصروف ہیں۔ آپ کے ذمہ تدریس کے علاوہ مدرسہ کا شعبہ حسابات بهی تها جسے آپ انتہائی محنت سے منظم و مرتب رکهتے تهے اکثر آڈٹ کے زمانےمیں ہم نے دیکها کہ دیر رات تک حسابات کو درست کرنے میں مصروف رہتے اگر لائٹ نہیں ہوئی تو شمع کی روشن میں اس ذمہ داری کو پورا کرتے تهے۔ مدرسہ کو ارتقائی مراحل تک پہونچانےمیں آپ عمید جامعہ ناظمیہ سرکار امیر العلماء مولانا سید حمید الحسن صاحب دامت برکاتہ کے دست راست تهے اور ہمہ وقت مدرسہ کی ترقی کے لئے کوشاں رہے ۔

ناظمیہ کے سلسلے میں آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں سرکار امیر العلماء مدظلہ نے جو بهی ذمہ داری سپرد کی اسے انتہائی امانت داری کے ساته انجام دیا۔ ان تمام مصروفیات کے باوجود مجالس کےلئے بهی آپ نے وقف نکالا ممبئی، ۔۔ پونہ مہوا، بهاؤ نگر، احمد آباد، میسور، جموں وغیرہ میں خطابت کے جوہر دکهائے بیان عالمانہ اور سلجها ہوا ہوتا تها۔ جو سامعین کے دل میں اتر جاتا تها۔

تصنیف و تألیف کا بهی شوق رہا مگر مشغولیت کے سبب زیادہ کام انجام نہ دیا جاسکا مگر پهر بهی حضرت امیر المومنین علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کی حیات و مناقب پر مشتمل کتاب ’’ نعمت عظمیٰ ‘‘ تصنیف کی اس کے علاوہ آیت اللہ سید محمد شیرازی کی توضیح المسائل کا ترجمہ کیا مگر یہ دونوں کتابیں زیور طبع سے آراستہ نہ ہوسکیں ۔ کچه ماہ قبل سے علیل چل رہےتهے۔ مگر اب صحت یاب ہوگئے تهے مگر اجل کے ہاتهوں نے ۲۱؍ جمادی الاول ۱۴۴۳ ه؁ ۲۶؍ دسمبر ۲۰۲۱ ء؁ بروز اتوار شفیق استاد کو ہم سے چهین لیا آپ کی رحلت سے علمی دنیا میں اداسی سی محسوس کی جارہی ہے خداوند عالم آپ کو جوار معصومین میں جگہ عنایت فرمائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .