۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا ارشد مدنی

حوزہ/ چیف جسٹس نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ ہم عوام کے بولنے پر اعتراض نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی اس پر پابندی لگانا چاہتے ہیں لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ ٹی وی کیبل اور انٹرنیٹ پر ایسی خبریں نشر نہیں ہونی چاہئے جو جھوٹ پر مبنی ہوں اور جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، کورونا وائرس کو تبلیغی مرکز نظام الدین سے جوڑ کر تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیاکے خلاف مولانا سید ارشدمدنی صدرجمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پر آج 28 جنوری کو چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ کے روبرو سماعت ہوئی۔ جمعیۃ علمائے ہند کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا نے کورونا وائرس کے حوالے سے تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا کی کوریج پر سخت تبصرہ کیا۔

مرکزی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے سی جے آئی نے کہا کہ یہ سمجھ نہیں آتا کہ سرکار نے اشتعال انگیز خبروں کے تئیں اپنی آنکھیں کیوں موند رکھی ہیں۔ عدالت عظمی نے کہا کہ آخر سرکار اس بارے میں کیوں کچھ نہیں کرتی۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے تیسرے حلف نامہ پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے نے کہا کہ ایسے پروگرام دکھائے گئے جو ایک فرقے کو اکساتے اور متاثر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر جانبدار اور سچی رپورٹنگ کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن دوسروں کو پریشان کرنے کے لیے ایسا کرنا بڑا مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اتنا ہی اہم ہے جتنا پولیس اہلکاروں کو لاٹھی دینا۔ عدالت عظمی نے کہا کہ اکسانے والی میڈیا کوریج پر کنٹرول ہونا چاہیے۔

میڈیا کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق سرکاری کے اختیارات کے تعلق سے جسٹس بوبڑے نے کہا کہ نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ خبروں پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بنچ کے سامنے کہا کہ وہ خبروں کے نشر ہونے سے پہلے سنسرشپ نہیں کر سکتے، لائیو شو یا بحث کو قابو نہیں کر سکتے۔ اس پر سی جے آئی نے کہا کہ عدالت تشدد کے معاملے پر فکر مند اور سنجیدہ ہے۔ انہوں نے حکومت سے اس معاملے پر ایک حلف نامہ بھی داخل کرنے کی ہدایت دی۔

مولانا مدنی نے سی جے آئی کے تبصرے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کے تبصرے سے ہمارا موقف درست ثابت ہوگیا۔

جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی والی تین رکنی بینچ کے روبرو سماعت کے دوران عدالت نے ایک بار پھر مرکزی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ پر اعتراض کیا، جس میں میں کہا گیا ہے کہ لائیو ٹی وی شو کو روکنے کا حکومت کے پاس کوئی میکانزم نہیں ہے نیز کوئی بھی پروگرام نشر ہونے سے قبل اسے روکا نہیں جاسکتا۔ البتہ پروگرام نشر ہونے کے بعد اگر شکایت درج کی جاتی ہے تو اس کے خلاف کیبل ٹی وی نیٹ ورک قوانین کے تحت کاروائی کی جاتی ہے۔

مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی حکومت نے چند ٹی وی چینلوں پر ایک ہفتہ تک خبریں اور پروگرام نشر کرنے کی پابندی لگائی تھی جس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ کچھ لوگوں کے ٹی وی چینل پر بھڑکاؤ بیان دینے کی وجہ سے فساد پھوٹ پڑتے ہیں اور جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ آج کوئی بھی کچھ بھی بولنے لگ جاتا ہے، چیف جسٹس کے اس بیان پر تشار مہتا نے کہا کہ یہ سچ ہے لیکن کچھ مواقع پر جان بوجھ کر ایسی حرکت کی جاتی ہے کہ عوام مشتعل ہوں اور سڑکوں پر اتر آئیں۔

چیف جسٹس نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ ہم عوام کے بولنے پر اعتراض نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی اس پر پابندی لگانا چاہتے ہیں لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ ٹی وی کیبل اور انٹرنیٹ پر ایسی خبریں نشر نہیں ہونی چاہئے جو جھوٹ پر مبنی ہوں اور جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔

جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی حکومت نے حلف نامہ میں جن اداروں کی بات کہی ہے وہ سب ”بغیر دانت“ کے ہیں یعنی کے ان کے پاس سخت ایکشن لینے کا اختیار نہیں ہے لہذا عدالت کو مرکزی حکومت کو حکم دینا چاہئے کہ وہ ایسا کوئی نیا میکانزم تیار کرے جس سے لائیو ٹی وی شو میں بھڑکاؤ باتیں کہنے اور اشتعال انگیز بیانات و جھوٹی خبریں نشر کرنے والے چینلوں پر کنٹرول ہوسکے۔

ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے عدالت کو بتایا حکومت کے پاس جو اختیارات ہیں وہ اس کا استعمال نہ کرکے جھوٹی خبریں نشرکرنے والے چینلوں کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اس معاملے کی سماعت کرتے کرتے تھک چکے ہیں لہذا اگلی سماعت پر تمام فریقین تحریری جواب داخل کریں جس کے بعد حتمی سماعت کی جائے گی، نیز مرکزی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ ایسا نہیں ہے جس کی ہم امید کررہے تھے لہذا مرکزی حکومت اگلی سماعت پر مشترکہ حلف نامہ داخل کرے۔

عدالت نے معاملے کی سماعت تین ہفتے کے لیے ملتوی کردی ہے۔ اس سماعت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ طاہر حکیم، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ عیسی حکیم و دیگر نے حصہ لیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .