۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
قم المقدسہ میں شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری کی یاد میں تعزیتی جلسہ

حوزہ/ قم المقدسہ میں شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری کی یاد میں تعمیر ہوئے علوم آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی ترویج کرتے ہوۓ مدرسہ شہید ثالث میں شہید کی ۴۲۳ویں برسی کے موقع پر ایک تعزیتی جلسے کا اہتمام کیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ میں گذشتہ روز بروز جمعرات بتاریخ 28جنوری کو عالی جناب مولانا علی عباس خان صاحب کے زیر صدارت شہید ثالث قاضی نور اللہ شوستری کی یاد میں تعمیر ہوئے علوم آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی ترویج کرتے ہوۓ مدرسہ شہید ثالث میں شہید کی ۴۲۳ویں برسی کے موقع پر ایک تعزیتی جلسے کا اہتمام کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق، اس جلسہ میں مدیر مدرسہ مولانا علی عباس خان صاحب، مسجد جمکران کےمسئول شعبئہ ہندوستان مولانا شاہد رضوی الہ آبادی صاحب مولانا باقر صاحب، مولانا عدیل صاحب مدرسے کے مسئول فرھنگی و کنوینر مولانا علی قمر مہدوی صاحب، مسئول آموزش مولانا ظہیر عباس صاحب، مسئول تربیتی نیّر عباس صاحب، مسئول اجرائی مولانا مہدی زیدی، مسئول پژوہش مولانا عمران ہاشمی صاحب و دیگر ذوی الاحترام علمائے کرام موجود تھے۔
 
رپورٹ کے مطابق جلسہ کا آغاز قاری جناب محمد آصف صاحب لکھنوی کی تلاوت سے ہوا و نظامت کے فرائض مولوی جناب محمد طہٰ صاحب نے انجام دیئے۔

بعد از تلاوت کلام حقّہ، ایرانی عالم دین پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی و رئیس مؤسسئہ آموزشی حکمت و فلسفہ ایران حجت الاسلام و المسلمین عبد الحسین مولانا خسرو پناہ صاحب نے اپنی والہانہ خطابت سے سامعین کے قلوب کو منوّر کیا۔

انہوں نے اپنے محققانہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذہب تشیع میں دو شخصیات کو شہید ثالث کہا جاتا ہے جنمیں سے ایک ایران کے قزوین میں مدفون ہیں اور انہیں بابیہا کے ہاتھوں قتل شہید کیا گیا تھا جبکہ دوسرے و معروف شہیہد ثالث قاضی نور اللہ شوستری ہیں کہ جنہوں نے تبلیغ و ترویج دین کی خاطر ہندوستان کا رخ کیا اور اس وقت وہاں پر بادشاہ اکبر کا زمانہ تھا جبکہ انہیں جہانگیر نے شہید کروادیا۔

موصوف نے فرمایا کہ شہید کو ہندوستان کے سفر کی دوسری بھی وجوہات ہیں جسمیں کہ اسوقت خراسان میں ماحول کا برہم ہونا بھی شامل تھا جبکہ ایک وجہ انکا ہندوستان سے دعوت ہونا بھی تھا۔

انہوں نے فرمایا کہ شہید کی قبر تقریبا دو سو سال تک سینہ در سینہ مخفی رہی اور پھر اسے صدی کی یادگار مولانا حامد حسین صاحب نے علیٰ الاعلان ظاہر کیا۔

انہوں نے مولانا حامد حسین صاحب کی عبقات الانوار کی تعریف میں کہا کہ کتاب کی فصاحت کا عالم یہ ہے کہ پچھلے تیس سالوں سے ایران و عراق جیسے شہر علم میں بھی آج تک اسکی مکمل شرح نہیں ہو پائی ہے۔

استاد خسرو پناہ نے اپنے اواخر کلام میں طلاب کو درس و تدریس کے ساتھ ہی فرھنگی و تبلیغی فعالیت کی تاکید فرمائی۔

اس کے بعد مولانا دبیر اختر دبیر فیض آبادی صاحب نے شہید کی شان میں خود گفتہ کلام پیش کیا و انکے بعد مولانا سید آل حسن صاحب نے بھی نظم پر معنی کلام سے سامعین کے قلوب کو منور فرمایا۔

اس کے بعد شہید ثالث آیت اللہ قاضی نور اللہ شوستری کی ذات پر خاص تحقیق کرنے والے متخصص ایرانی عالم دین جناب حسن ترابی صاحب نے بھی گفتگو کرتے ذات شہید پہ نکات الزامی کو بیان کیا۔

واضح رہے کہ شہید ثالث آیت اللہ قاضی نور اللہ شوستری مسلمانوں کے چاروں مذاہب فقہہ کا علم رکھتے و انکے مطابق فتاوے صادر کرتے تھے۔ جبکہ مدرسہ شہید ثالث قم ایران میں واقع دفتر نمائندگئی رہبری کی جانب سے ترویج علوم آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کرتے ہوئے جامعۃ المصطفیٰ کے تحت اشراف مدارس میں سے ایک ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .