حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، دوسرے انتظامی اصلاحات کمیشن (سیکنڈ ایڈمنسٹریٹیو ریفارمز کمیشن) نے کہا تھا کہ ایک دیانتدار انتظامیہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا۔ کمیشن کی رپورٹ میں اس طرح کی کئی باتیں کہی گئی تھیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یو پی اے سرکار، جس نے اس کمیشن کو وضع کیا تھا، خود بدعنوانیوں کو عروج پر پہنچانے کے لئے بدنام تھی۔
پانچ سال قبل ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ ہندوستان پہلی بار کرپشن کو قابو کرنے کے معاملے میں چین سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ لیکن اب اس کی حالیہ رپورٹ میں ایک مختلف صورتحال بیان کی گئی ہے۔ عالمی سطح پر کرپشن کے رجحانات کی نشاندہی کرنے والے اس ادارے کے مطابق کرپشن کی درجہ بندی کے حوالے سے ہندوستان سال 2014ء میں 85 ویں نمبر پر تھا، لیکن اب اس میں مزید تنزلی آگئی ہے۔
ایمانداری کے ٹیسٹ کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ڈنمارک اور نیوزی لینڈ کو 100 میں سے 88 نمبرات ملے ہیں۔ جبکہ فِن لینڈ، سنگاپور، سویڈن اور سویٹزر لینڈ کو اس پیمانے پر 85 نمبرات حاصل ہیں۔ اس طرح سے یہ ممالک دُنیا بھر کے اُن ممالک میں شامل ہیں جہاں سب سے کم بد عنوانیاں پائی جاتی ہیں۔ اس پیمانے پر ہندوستان کو محض 40 نمبرات حاصل ہوئے ہیں۔ جبکہ پیمانے پر عالمی شرح اوسطاً 43 ہے۔ ہندوستان کرپشن کے حوالے سے ایشیا پیسفک کی اوسط سطح سے بھی بدتر حالت میں ہے۔ چین کو کرپشن ناپنے کے اس پیمانے پر 78 ویں رینک حاصل ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے یہ بھی کہا ہے کہ کووِڈ۔19 وبا نے محض صحت اور معیشت کے شعبوں میں تباہی نہیں مچائی ہے بلکہ اس کی وجہ سے کرپشن کی غلاظت مزید پھیل گئی ہے۔ اس رپورٹ میں کرپشن روکنے میں ناکامی کا مظاہرہ کرنے پر مختلف ممالک کی حکومتوں کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔
دو ماہ قبل گلوبل کرپشن بائیومیٹر نے کہا تھا کہ 39 فیصد رشوت ستانی کے ساتھ ہندوستان کرپشن کے صف اول میں کھڑا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہندوستان میں سفارش یا رشوت کے بغیر کوئی بھی عام انسان اپنا مطلوبہ کام نہیں کرواسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے گزشتہ سال اکتوبر میں یہ کہہ کر کرپشن کے خلاف جنگ چھیڑنے کی ضرورت پر زور دیا تھا کہ خود کفیل ہندوستان کو قائم کرنے کے ہدف میں کرپشن سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سوال یہ ہے کہ قوم کو یہ جنگ چھیڑنے کےلئے کون تیار کرے گا؟
ہندوستان کے لوگ کرما یعنی مکافات عمل میں یقین رکھتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو یہ کہہ کر سہہ لیتے ہیں کہ یہ اُن کے کرموں کا پھل ہے، جس سے کوئی نہیں بچ سکتا ہے۔ نتیجے کے طور پر کرپشن کا پیڑ ہر طرف اپنی جڑیں مضبوط کر گیا ہے۔ ہمارے یہاں کرپشن ایک ایسی انڈسٹری بن گئی ہے، جس میں کم سے کم رسک ہے لیکن زیادہ سے زیادہ فائدہ ہے۔ اس کی وجہ سے انسانی زندگیاں بھی داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ صرف چار ہفتے قبل اُتر پردیش کے مراد آباد میں ایک قبرستان میں بارش سے بچنے کے لئے بنائے گئے شیڈ کے گر جانے سے 25 افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ شیڈ 30 لاکھ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا تھا۔ لیکن تقربیاً اس کا تیس فیصد پیسہ رشوت ستانی میں چلا گیا تھا۔ باقی ماندہ رقم میں سے شیڈ تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار نے اپنا منافع بھی کمالیا تھا۔ یعنی اس کی تعمیر میں معیار کے ساتھ کھلواڑ کئے جانے کے نتیجے میں 25 انسانی زندگیوں کا اتلاف ہوگیا۔ ماضی میں سپریم کورٹ نے خود کہا تھا کہ سال 1993ء میں ممبئی میں بم دھماکے نہیں ہوئے ہوتے اگر آٹھ پولیس افسران اور پانچ کسٹم افسران نے رشوت لیکر اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی نہ برتی ہوتی۔
ہر سال ملک کی ترقی کے لئے دھوم دھام سے سالانہ بجٹ میں لاکھوں کروڑ روپے مختص کئے جاتے ہیں۔ لیکن ترقی کی راہ میں کرپشن کی وجہ سے کئی رکاوٹیں حائل ہوجاتی ہیں۔ ڈنمارک جیسے ممالک، جہاں کرپشن کا وجود نہیں ہے، میں 55 فیصد جی ڈی پی عوامی کام اور خدمت کےلئے صرف کیا جاتا ہے۔ ہندوستان جی ڈی پی کا پچیس فیصد بھی ان شعبوں میں خرچ کرنے کا اہل نہیں ہے۔ جو کچھ بھی ان شعبوں میں خرچ کیا جاتا ہے، اس کا ایک حصہ رشوت خوروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (حقِ اطلاعات کا قانون) انسداد کرپشن کے لیے بنایا گیا تھا لیکن یہ قانون غیر موثر ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر اس ساری صورتحال کو کرپشن کی گھٹائیں نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ سابق چیف ویجی لینس کمشنر مسٹر این وِتھال نے اپنے دورِ اقتدرا میں نوجوانوں کے لئے این سی سی کی طرز پر نیشنل ویجی لینس کارپس (این وی سی) قائم کرنے کی تجویز دی تھی۔ تب سے دو دہائیاں گزر گئیں، لیکن اس تجویز کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ بہرحال یہ وقت اندھیرے کی شکایت کرنے کا نہیں ہے۔ اگر حکومت انسدادِ کرپشن کے لئے کچھ موثر اقدامات کرتی ہے تو لوگ یقیناً اُسی طرح اس کا ساتھ دیں گے، جس طرح اُنہوں نے نوٹ بندی کے حکومتی فیصلے کا ساتھ دیا تھا۔ کرپشن کے خلاف جنگ کے لئے بگل بجانا اب مودی سرکار کی ذمہ داری ہے۔