حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، زہرامنزل،ویشال سیٹی لکھنئومیں سہ شنبہ ۷بجے شب، ۲فروری ۲۰۲۱ عیسوی میں شہزادی کونین س کے بڑے ہی اعلیٰ پپیمانے پروگرام میں کتاب کارسم اجراء ہوا۔
حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمدرضوی نے بتایا کہ اس اہم پروگرام میں علمی فضا کو برقرار رکھنے کے لئے کتاب کی رونمائی کی گئی ہے۔ چونکہ قرآن و عترت فاونڈیشن جہاں بھی پروگرام منعقد کرتا ہے وہاں یہ کوشش ضرور کرتا ہے کہ کتابوں کی رونمائی بھی کرسکے، اور علماء افاضل کے علاوہ دیگر دانشمندوں کی کاوشوں کو لوگوں کے سامنے پیش کرسکے۔
اس کتاب کے مولف محترم بزرگ جناب سید آل ابراہیم رضوی جو ہندوستان کے صوبہ بہار کے ضلع سیوان میں علمی اور دینی زرخیز بستی بھیک پورکے باشندہ ۸۰سال کے بزرگ ہیں، لیکن میدان قلم میں جواں مرد ہیں آپ جید عالم دین، دانشور، مفسر قرآن اور خطیب اہلبیتؑ مولانا سید حفاظت حسین اعلی اللہ مقام کے فرزند ہیں، مولف کتاب سید آل ابراہیم رضوی بہار گورنمنٹ کے ضلع آڈیٹ آفسر کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہیں،آپ اردو اور انگریزی زبان میں صاحب قلم ہیں، آپ کے مضامین دینی، ادبی اردو جریدے اصلاح ماہنامہ لکھنئو، اور الجواد بنارس میں شایع ہوا کرتے ہیں اور زیادہ تر بہار کی نمایندگی آپ ہی کیا کرتے ہیں، آپ ذاکر اہل بیت ؑ کی فہرست میں بھی داخل ہیں، انگریزی میں آپکی کئی کتابیں منظرعام پہ آچکی ہیں، آپ اردو زبان سے انگریزی زبان کے ترجمہ نگار بھی ہیں، اپنے والد بزرگوار کی دو کتابیں جوفن شاعری میں ہیں اسکا ترجمہ بھی انگریزی شعار میں کیاہے۔سبھی سے دعاہے کہ آجکی شب کی برکت سے مولف کتاب کی صحت یابی کے لئے شہزادی کونینسدرخواست کریں کہ آپ کومزید توفیقات عنایت کریں کہ جس طرح سے اس پروگرام میں آپکی لکھی ہوئی مذہب حقہ کے دفاء میں آپکی کتاب کارسم اجرع ہوا اسی طرح آیندہ بھی اس سے بہتر انداز میں ہوسکے؟
مولانا موصوف نے فرمایا کہ بہت سارے لوگ مطالعہ کتاب کے بارے میں اطلاع نہیں رکھتے انکے لئے یہ کہنا ضروری ہے کہ؟اگر انہیں یہ پتہ چل جائے کہ ہم اسکے ذریعے سے ایک نئی دنیا میں داخل ہوتے ہیں تو وہ ہرگز اسے بھول نہیں سکتے؟ کتاب کے بھی الگ الگ نام ہوتےہیں، کوئی کتاب رحلی، وزیری، توکوئی جیبی، قطعی ہوا کرتی ہے۔ نشر اور چاپ کتاب کے بھی الگ الگ نام ہوا کرتے ہیں، کسی کا نام صحافی، تو کسی کا دیجیتالی وغیرہ نام ہوا کرتا ہے۔
مولانا موصوف سے یہ پوچھے جانے پرکہ تاریخ چاپ پر اپنے مطالعے کو پیش کیجے توفرمایا کہ یہ مسئلہ ۵ہزار سال پہلے کاہے کہ پہلے کتاب لوح گلی کی شکل میں پیش ہوتی تھی مگر جیسے جیسے بشرنے ترقی کی تواب اس طریقے پرپریس سے چھپ کے آتی ہے جو آپلوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ کتابخانہ کیا شیع ہے اور دنیا میں سب سے پہلے اسکا قیام کہاں ہوا تو فرمایا کہ تقریبا تیسری صدی میں یہ چیز دنیا والوں کے سامنے پیش ہوئی جوکہ روم ملک میں اس وقت۳۰ کتابخانے موجود تھے۔
جب یہ سوال کیا گیا کہ ایک کتاب کو منظرعام پر لانے کے لئے کن لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ مترجم، مولف، مصنف، مصحح، ناشر وغیرہ کے خون جگر سے یہ نئی زندگی لوگوں کے اختیار میں دی جاتی ہے، اسی طرح جب کتابخوانی کے سلسلے سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ کتابخوانی یعنی کتاب کے توسط سے ایک نئی دنیا کو ڈایرکٹ دیکھنا، لہٰذا یہ فرض بنتا ہے کہ ایک جدید روش سے قدیم فعالیت کو اجاگرکریں۔
طریقہ کار کتابخوانی کایہ ہے کہ کاغذ پر لکھے جانے والے مطالب، صحافی کے ذریعے سے مجہز ہوک رپیش ہوتے ہیں جسمیں ابتدا سے آخر تک سب کچھ معلوم ہوا کرتا ہے اور فہرست بندی، صفحہ بندی اور جملے کی سیٹنگ سے مشتمل ہوا کرتا ہے، آجکی دنیا جو ٹکنولوجی سے ترقی شدہ زمانہ ہے جہاں اجتماعی ٹیلیویزن، ایمو، ٹیلیگرام،ٹویٹر وبلاک، سایٹ اور کلپ کی دنیا ہے پھر اس سے استفادہ پر یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ کتاب پڑھی مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ڈھنگ سے مطالعہ کیا، لہذا پھر ضرورت ہے، مطالعہ اور کتابخوانی کا قدیم رواج لائیں، وہ لوگ جنہیں قوم، معاشرہ اور اچھی زندگی گزارنے کا درد ہے وہ ایکبار پھر مطالعہ اور کتابخوانی کی اہمیت کو دنیا بھر میں پیش کریں؟ کیونکہ اس عمل سے قوم زندہ ہوتی ہے مردہ نہیں؟۔