حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انٹرنیشنل نور مائکروفلم سینٹر دہلی میں جناب ڈاکٹر مہدی خواجہ پیری صاحب کی نگرانی میں دنیا کے سب سے بڑے اور قدیمی قرآن مجید کے قلمی نسخہ کی مرمت:
قرآن مجید کا یہ نسخہ 250 سال پہلے شہر بڑودہ صوبہ گجرات میں جناب محمد غوث نامی ایرانی خطاط کے توسط سے کاجل سے 18 سال میں مکمل ہوا۔ اس کی چوڑائی ایک میٹر اور لمبائی ڈیڑھ میٹر ہے اس نسخہ پر فارسی زبان میں ہر آیت کا ترجمہ اسی کے نیچے رکھا گیا ہے اور حاشیہ پرتفسیر حسینی لکھی ہوئی ہے۔ اس نسخہ پر بین السطور سونے کے پانی اور تذہیب میں طبعی رنگوں سے استفادہ کیا گیا ہے،ہر صفحہ کی تذہیب دوسرے صفحوں سے جدا اور الگ ہے نیز ہر صفحہ پر کیپچرورڈ (Capture Word)بھی رکھا گیا ہے تاکہ بعد والے صفحہ کا اندازہ ہوسکے۔ اس نسخہ پر سوروں کا نام جلی لال قلم سے لکھا گیا ہے نیز سورہ کے مکی یامدنی اور نمبر شمار جیسے تسع و خمسون وغیرہ لال قلم سے لکھا ہوا ہے۔ صفحہ کےچاروں طرف کالی اور باریک لائن سے باڈر پھر گولڈن اور نیلی لائن اس کے بعد لال اور کالی لائن پھر گولڈن کالی موٹی لائنوں سے باڈر بنا ہے جس میں کاجل سے آیات اور ان کا فارسی ترجمہ لال رنگ سے لکھا ہوا ہے نیز سطروں میں جگہ جگہ علامات آیت لال ، کالے اور مختلف رنگوں سے نقاشی کے ساتھ بنی ہوئی ہیں۔ ہر صفحہ پر ایک مثلث ہے اور اس کے اندر مختلف پھول اور بیل بوٹوں کی نقاشی کی گئی ہے اور اس میں پھل، پھول اور سبزیوں کے رنگ کا استعمال ہوا ہے۔ خطاط نے صفحات کے وسط میں بھی نقاشی کی ہے جودیکھنے میں خوشنما دکھائی دیتی ہے۔
یہ کلام اللہ تیس پاروں اور تیس جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس نسخہ کی زیارت کرنے کے لئے لوگ سال میں ایک مرتبہ ماہ مبارک رمضان میں بلا تفریق مذہب وملت اللہ کے کلام کی زیارت کرنے کے لئےتشریف لاتے ہیں۔ اس نسخہ کی اکثر جلدیں بارش کے پانی سے خراب ہوگئیں تھیں پھر ان جلدوں کو شہر بڑودہ سے انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی بھیج دیا گیا تاکہ مرمت ہوسکے۔ ایسے نسخہ کی مرمت کرناجس پر ایک فنکار نے اپنی فنکاری دکھائی ہو ایک عمل دشوارتھا مگر اللہ رب العزت کی مدد سے ابھی تک چھ سال میں چھ جلدوں کی مرمت اور ان کی مضبوط عمل میں آچکی ہے اور ابھی اسی کی مدد سے پچیسویں اور چھبیسویں جلدوں پر مرمت کا کام مرکز کے خطاط استاد سیدابو حیدر زیدی اور دیگر افراد کے توسط سے چل رہا ہے۔
مرکز کے خطاط جناب سید ابوحیدر زیدی صاحب نے صفحات کی عبارتیں، آیات ، ترجمہ، حاشیہ اور تذہیب میں اس بات کاخیال کیا ہےکہ دیکھنے والے کو خطاط کے بدلنے کا اندازہ نہ ہوسکے جس انداز اور خط میں آیات لکھی ہوئی تھیں اسی انداز میں آیات کو لکھ کر اپنے فن کا اظہار کیا ہے۔