۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
قم المقدسہ میں بمناسبت ولادت حضرت زہرا (س) عظیم الشان سمینار کا انعقاد

حوزہ/ تشکل امام حسن عسکری علیہ السلام کی جانب سے روز سہ شنبہ مطابق ۱۹ جمادی الثانی بمناسبت مدرسہ حجتیہ قم المقدسہ میں ولادت با سعادت جگر گوشۂ رسول الثقلین ہمسر فاتح بدر و حنین مادر حسنین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تشکل امام حسن عسکری علیہ السلام کی جانب سے روز سہ شنبہ مطابق ۱۹ جمادی الثانی بمناسبت مدرسہ حجتیہ قم المقدسہ میں ولادت با سعادت جگر گوشۂ رسول الثقلین ہمسر فاتح بدر و حنین مادر حسنین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جسمیں محترم دانش حسینی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے اور سیمینار کا آغاز قاری علی مہدی نے تلاوت کلام ربانی سے فرمایا۔

پہلی تقریر مولانا سید حیدر عباس صاحب نے کی جس میں موصوف نے مختلف زاویوں سے سیرت و کردار حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو بیان فرمایا خصوصا حضرت فاطمہ کی زندگی کے تین اہم پہلو ہیں: 

۱۔ ایک آپ کا رحمۃ للعالمين پیغمبر کیلئے باعث رحمت قرار پانا، بیٹی ہو کر پیغمبر کو ماں کی طرح سکون و چین مہیا کرنا تاکہ پیغمبر تمام زحمات تبلیغ کے بعد اطمینان و سکون حاصل کرسکیں اسی مھر و محبت کے سبب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سند عطا فرمائی فاطمة أم أبيها.

۲۔ شہزادی کی زندگی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آپ کل ایمان امام علی علیہ السلام کی ہمسر قرار پائیں۔ اور جب پیغمبر نے سوال کیا کہ علی! آپ نے میری بیٹی کو کیسا پایا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ فاطمہ کو عبادت میں مددگار پایا۔ مولانا نے ذکر فرمایا کہ علی علیہ السلام محراب عبادت میں دنیا و ما سوی سے بے خبر رہتے تھے اس لئے پاؤں میں لگے تیر کو حالت نماز میں کھینچا گیا مگر علی علیہ السلام کو خبر تک نہیں ہوئی، تو پھر علی نے فاطمہ کو عبادت میں کیسے محسوس کیا؟ موصوف نے فرمایا کہ اسکا مطلب یہ ہے کہ فاطمہ بھی عبادت کے دوران محضر خدا میں اسی مقام پہ پہنچی ہوئی تھیں جہاں علی علیہ السلام ہوتے تھے۔

۳۔ شہزادی کی زندگی کا تیسرا پہلو ماں ہونا ہے اور ماں کا اہم ترین کرادر بچوں کی تربیت ہے اس پہلو سے بھی اگر ہم حضرت فاطمہ کو دیکھتے ہیں تب بھی آپ نے بچوں کی تربیت ایسے کی جود سخا میں بچے بھی ماں باپ کے ساتھ نظر آتے جسکا گواہ سورہ دھر ہے۔

دوسری تقریر مدیر مدرسہ فقہ و معارف آقای کمال حسینی صاحب نے کی جسمیں آپ نے اپنی گفتگو کو خدا محوری، خدا باوری، خدا یاری میں بیان کیا موصوف نے تمہیدا بیان فرمایا کہ انسان کی تمام توجہ اپنی ذات پر ہوتی ہے دوسرے لوگوں کا کیا حال ہے اسے کوئی سروکار نہیں شہزادی اس خود محوری کے خلاف فرماتی ہیں الجار ثم الدار کبھی انسان فقط دوسروں کی طرف توجہ رکھتا ہے اور خود سے غافل رہتا ہے اصل و ملاک اور معیار در زندگی خدا محوری ہے
اسکے بعد موصوف نے فرمایا کہ خدا محوری کے بعد کا مسئلہ خدا باوری ہے متعدد آیات و روایات سے واضح فرمایا کہ انسان کو ہمیشہ ہر حال میں خدا کے ساتھ ہونے کا اعتقاد و یقین رہنا چاہیے۔

جناب موسی کی قوم جب دریائے نیل پر پہنچی اور پیچھے سے فرعون اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آن پہنچا تو جو ضعیف العقیدہ تھے وہ گھبرا کر بولے کہ ہم تو گھر گئے ۔ لیکن وہ جو خدا باور تھے انہوں نے کہا ہرگز ایسا نہیں ہے اللہ ہمارے ساتھ ہے وہی ہماری ہدایت فرمائے گا اور چشم فلک نے دیکھا کہ اہل ایمان کو اللہ نے کیسے نجات دی اور طاغوت کو کیسی عبرت ناک موت دی یہاں پر موصوف نے دہ فجر اور ولادت امام خمینی رہ کی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ فرزند زہرا بھی ۲۰ جمادی الثانی کو پیدا ہوئے چونکہ خدا باوری تھی لہذا  تمام طاقتوں سے ٹکرا گئے اور کامیاب ہوئے اسلئے کہ جب انسان خدا پر یقین رکھتا ہے تو خدا سب سے کمزور گھر مکڑی کے جالے کے ذریعہ عزیز ترین شخص کی حفاظت کرتا ہے ۔ امام خمینی رہ چونکہ خدا پر ایمان رکھتے تھے لہذا فرمایا آمریکا هیچ غلطی نمی تواند بکند یہ جملہ کہنے کیلئے شیر کا جگر چاہئے اور اسی اعتقاد و طاقت کے ساتھ امام خامنہ ای حفظہ اللہ ظاغوت کے مقابلہ میں ڈٹے ہوئے ہیں۔

پھر موصوف نے فرمایا کہ خدا باوری کے بعد خدا یاری کا مسئلہ ہے ۔ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کریگا ۔ کس چیز کے ذریعہ اللہ کی مدد کریں؟ فرمایا جو تمہارے نزدیک محبوب ترین شئ ہو۔ لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون ۔ شہزادی نے شادی کے فورا بعد اپنا لباس سائل کو عطا کیا جو خدا یاری کا بہترین نمونہ ہے

پھر تیسرے اور آخری خطیب مولانا ظہور مہدی مولائی صاحب نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور دین خدا کی پاسداری کے موضوع ذیل اپنے عالمانہ بیان سے کاروان نور کو اگے بڑھایا مولانا موصوف نے تمہیدا ارشاد فرمایا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، امام علی علیہ السلام اور امام حسن و حسین علیہما السلام زہد کے کمال پر فائز تھے جو فریقین سے ثابت ہے ۔ آپ نے آنحضرات کے زہد کے مختلف نمونے پیش کئے اسکے بعد سوال قائم کیا کہ جب شہزادی زہد کے اس مقام پر فائز تھیں تو پھر کس لئے آپ نے فدک کا مطالبہ کیا؟

اس کا مطلب یہ ہے غصب خلافت و حکومت اور غصب فدک کے سلسلہ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے جو مسلسل جد وجہد انجام دی وہ اپنی ذات یا اپنے شوہر اور اولاد کے لئے مادی مقاصد کو مدنظر قرار دے کر نہیں ہے بلکہ اس دینی انحراف کو روکنے کے لئے انجام دی ہے جو بنام دین ، دین اندر پیدا کیا جارہا تھا۔ اور انحراف یہ تھا کہ الہی و دینی قیادت و خلافت جو الہی منصوبہ کے تحت ہمیشہ معصوم ہاتھوں میں رہی تھی اب اسے معصوم ہاتھوں سے نکال کر نہایت بے رحم اور گناہگار ہاتھوں میں دیا جارہا تھا اور یہ ایسا انحراف تھا جو اسلام و مسلمین کے لئے کھلی ذلت و رسوائی اور تباھی و بربادی کا باعث تھا۔
دوسرا انحراف یہ تھا کہ بڑی آسانی ایک دنیا طلب ٹولہ دین کی آڑ میں باطل کو حق اور حق کو باطل ثابت کرنے پہ مصر تھا اور یہ الہی و دینی عظیم تعلیمات کے کھل کر قتل عام تھا، قضیہ غصب فدک میں ایک سادہ قضیہ نہیں تھا بلکہ ابطال حق اور احقاق باطل کی نہایت منحوس و پلید کوشش تھی۔ جناب زہرا اس خطرناک انحراف کی طرف سارے انسانوں متوجہ کرنے سراپا احتجاج بن گئیں اور بنام دین، اس گھناؤنے منصوبہ کی آپ قلعی کھول کر رکھ دی نیز دین حق اور اسلام ناب کی پاسداری کی خاطر آخرش اپنی اور اپنے  محسن کی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیا۔

سیمینار میں، جناب دانش حسینی، جناب ضیغم صاحب، یاور سرسوی صاحب، اور مشہد مقدس سے تشریف لائے مولانا ہاشم نقوی صاحب بارگاہ سیدہ سلام اللہ علیھا میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش فرمایا، سیمینار میں مدیر ادارہ فرھنگی مدرسہ حجتیہ قم، حاج آقای صرفی بھی موجود تھے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .