حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ/ گروہ مطالعاتی آثار شہید مطہریؒ و تحریک بیداری امت مصطفی (ص) شعبہ قم كی جانب سے مركز تحقیقات اسلامی بعثت میں خمسہ مجالس ایام فاطمیہ کی مناسبت سے آخری مجلس عزا کا آغاز حجۃ الاسلام و المسلمین سید شعیب عابدی نے خطبہ فاطمہ سے کیا۔ جس میں آپ نے خطبہ کے اساسی اور عمیق مضامین سے سامعین کو مستفید فرمایا۔ پھر " غم فاطمہ علیہا السلام " کے عنوان سے حجۃالاسلام و المسلمین مظفر حسین بٹ صاحب نے خطاب فرمایا۔
خطاب میں آپ نے فرمایا کہ اگر چہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی مختصر تھی لیکن آپ کی اس زندگی میں جہاد، مبارزہ، جدوجہد، صبر و استقامت، بصیرت و شجاعت، درس و تدریس، توحید، نبوت اور امامت و ولایت کے دفاع میں تقاریر کا ایک بحر بیکراں سمندر پایا جاتا ہے۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی مجاہدانہ زندگی جو عظیم الشان اور غیر معمولی حد تک بے نظیر اور بے مثال ہے۔
غم فاطمہ علیہا السلام کے حوالے سے خطیب محترم نے فرمایا کہ سب سے پہلے ہمیں غم فاطمہ علیہا السلام سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت زہرا علیہاالسلام کا غم کیا تھا؟ کس غم نے زہراء مرضیہ سلام اللہ علیہا کو قیام کرنے پر مجبور کیا ؟
خطیب محترم نے فرمایا کہ غم فاطمہ علیہا السلام کے حوالے سے بہت سارے غم ذکر کئے جاتے ہیں مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کا غم، باغ فدک کے غصب کرنے کا غم، محسن کی شہادت کا غم، پہلوئے شکستہ کا غم، امام علی علیہ السلام کو اقتدار نہ ملنے کا غم ۔۔۔۔وغیرہ لیکن حضرت زہرا علیہا السلام كا اپنا اصلی غم نہیں تھا بلکہ آپ علیہا السلام کے نزدیک اصلی غم یہ تھا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے فورا بعد امت ایک خطرناک قسم کے انحراف میں گرفتار ہوئی، وہ انحراف یہ تھا کہ اسلامی حاکم کے بجائے مسلمان حاکم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کا عہدہ سنبھال لیا ، وحی کے بجائے عقل کو محور قرار دیا گیا ،اجتہاد کو نص کے مقابلے قرار دیا گیا ۔ معصوم حاکم کو حذف کرکے غیر معصوم کا انتخاب عمل میں لایا گیا ۔ یہ وہ غم ہیں جن کی خاطر فاطمہ زہرا علیہاالسلام نے قیام فرمایا۔
خطیب محترم نے فرمایا کہ حضرت فاطمۃ زہرا علیہا السلام کا بصیرت افروز خطبہ غم فاطمہ سلام اللہ علیہا سمجھنے کا ایک اہم منبع اور سرچشمہ ہے کیونکہ اس خطبہ میں حضرت زہرا علیہا السلام نے اپنے قیام کے علل واسباب کو تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور حضرت فاطمۃ زہرا علیہا السلام کا یہ خطبہ نہج البلاغہ کے خطبہ شقشقیہ کے لئے ماں کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ زہرائے مرضیہ نے یہ خطبہ 11 ہجری میں مسجد مدینہ میں دیا جبکہ امام علی علیہ السلام 35 ہجری کے بعد یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور اس خطبہ میں امیرالمومنین علیہ السلام نے غم فاطمہ علیہا السلام کو آشکارا طور پر بیان فرمایا ہے:
آگاہ ہو جاؤ کہ خداکی قسم فلاں شخص ( ابن ابی قحافہ) نے قمیص خلافت کو کھینچ تان کر پہن لیا ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ خلافت کے لئے میری حیثیت چکی میں مرکزی کیل کی سی ہے۔ اگر چكی میں وه كیل نه ہو تو چكی یا خلافت بے فائده هے، علم کا سیلاب میری ذات سے گزر کر نیچے جاتا ہے اور میری بلندی تک کسی کا طائر فکر بھی پرواز نہیں کر سکتا ہے۔پھر بھی میں نے خلافت کے آگے پردہ ڈال دیا اور اس سے پہلے تہی کرلی اوریہ سوچنا شروع کردیا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کردوں یا اسی بھیانک اندھیرے پرصبر کرلوں، تو میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کرلیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اورگلے میں رنج و غم کے پھندے تھے۔میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔(نہج البلاغہ ،خطبہ شقشقیہ 3)
مجلس کے آخر میں خطیب محترم نے فرمایا کہ ہمیں غم فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ اپنے غم کو ہماہنگ کرنا چاہیے، یعنی ہمارے غم کا معیار بھی وہی ہونا چاہیے جو معیارحضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے غم کا تھا کیونکہ جب تک ہم غم فاطمہ علیہا السلام کو درک نہیں کریں گے تب تک فاطمی بن نہیں سکتے ہیں۔