تحریر: مولانا سید منظور عالم جعفری سرسوی
حوزہ نیوز ایجنسی | حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام عالم اسلام کی ایک ایسی باعظمت وفضیلت خاتون ہیں جوکہ نہ صرف دنیا کی خواتین کے لئے نمونہ عمل ہیں بلکہ ائمہ معصومین علیہم السلام کیلئے بھی آپکی سیرت زندگی اسوئہ حسنہ ہے۔ جیساکہ امام زمانہ عج اللہ فرجہ نے ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ لی فی ابنة رسولِ الله اُسوةٌ حَسَنَةٌ۔ ’’میرے لئے حضرت فاطمۃ الزہرا ء علیہاالسلام اسوئہ حسنہ ہیں ۔‘‘
آپ ایک ایسی منفرد خاتون ہیں جن کی فضیلت زندگی کے ہر شعبے میں آشکار ہے اور آپ کے فضائل ومناقب کو قرآنی آیات اورمعصومین علیہم السلام کی روایات میں باربار ذکرکیاگیاہے۔
حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام، قرآن کریم، فضائل و مناقب، آیاتِ تطہیر، آیتِ مودت، آیتِ ذی القربی، آیتِ ایثار، اہلِ بیت علیہم السلام، نزولِ آیات، سببِ نزول، شانِ نزول، تفسیرِ باطنی، لیلۃ القدر، دین القیمۃ، فدک، ایثار، صدیقہ طاہرہ، بیوتِ نور، ولایت، معصومیت۔
اہلِ بیتؑ کے بارے میں نزولِ قرآن کے اصول
حضرت فاطمۃ الزہراءعلیہاالسلام کے سلسلہ میں فریقین نے متواتر طورپر مقصود آیاتِ قرآنی کے ذیل میں آپ کی فضیلت کو بیان کیاہے۔ مولائے کائنات حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہماالسلام نےارشاد فرمایا ہے:
نَزَلَ اَلْقُرْآنُ عَلَى أَرْبَعَةِ أَرْبَاعٍ رُبُعٌ فِينَا، وَ رُبُعٌ فِي عَدُوِّنَا، وَ رُبُعٌ فِي فَرَائِضَ وَ أَحْكَامٍ، وَ رُبُعٌ سُنَنٌ وَ أَمْثَالٌ وَ لَنَا كَرَائِمُ اَلْقُرْآنِ .
قرآن کریم چار حصوں میں نازل ہوا ہے:
(۱)قرآن کریم کاایک چوتھائی حصہ ہمارے بارے میں ہے۔
(۲)قرآن کریم کا دوسرا چوتھائی ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے۔
(۳)قرآن کریم کے تیسرے چوتھائی حصہ میں قصص وامثال ہیں۔
(۴) قرآن کریم کے آخری چوتھائی حصہ میں فرائض اور احکام کوبیان کیاگیاہےاور کراماتِ قرآنی ہمارے لئے ہے۔‘‘
قرآن میں وارد آیاتِ فضائل
اس حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم فریقین کی تفسیر اوراحادیث کی کتابوں کی طرف مراجعہ کریں تو ہمیں ملے گاکہ علماءفریقین نے قرآن کریم کے 68سے زیادہ سوروںمیں سے 238 ایسی آیات کا تذکرہ کیاہےجن میں فضائل ومناقب حضرت فاطمۃ الزہراعلیہا السلام کو بیان کیاگیاہے ۔وہ سورے اور آیات کہ جن میں فضائل حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام کو بیان کیاگیاہے:
شمارہ نام سورہ تعداد آیات شمارہ نام سورہ تعداد آیات
۱ الفاتحۃ ۲ ۲ البقرۃ ۱۱
۳ آلِ عمران ۸ ۴ النساء ۵
۵ المائدۃ ۱ ۶ الانعام ۵
۷ الاعراف ۶ ۸ الانفال ۴
۹ التوبہ ۲ ۱۰ ھود ۶
۱۱ یوسف ۱ ۱۲ الرعد ۲
۱۳ ابراہیم ۳ ۱۴ الحجر ۷
۱۵ النحل ۴ ۱۶ الاسراء ۵
۱۷ الکہف ۲ ۱۸ مریم ۱
۱۹ طٰہٰ ۴ ۲۰ الانبیاء ۴
۲۱ الحج ۵ ۲۲ المؤمنون ۴
۲۳ النور ۵ ۲۴ الفرقان ۴
۲۵ الشعراء ۲ ۲۶ النمل ۲
۲۷ القصص ۳ ۲۸ العنکبوت ۲
۲۹ الروم ۱ ۳۰ الاحزاب ۲
۳۱ سبا ۱ ۳۲ فاطر ۴
۳۳ الصافات ۴ ۳۴ الزمر ۲
۳۵ غافر (المؤمن) ۱ ۳۶ فصلت ۱
۳۷ الشوری ۲ ۳۸ الزخرف ا
۳۹ الدخان ۷ ۴۰ الجاثیہ ۱
۴۱ محمد ۱۵ ۴۲ الفتح ۲
۴۳ ق ۱ ۴۴ الذاریات ۲
۴۵ الطور ۸ ۴۶ القمر ۱
۴۷ الرحمن ۴ ۴۸ الواقعہ ۱۹
۴۹ الحدید ۱ ۵۰ الحشر ۳
۵۱ الجمعۃ ۱ ۵۲ التغابن ۱
۵۳ التحریم ۲ ۵۴ المزمل ۱
۵۵ المدثر ۶ ۵۶ الانسان ۳
۵۷ المرسلات ۴ ۵۸ المطففین ۲
۵۹ البروج ۱ ۶۰ البلد ۳
۶۱ الشمس ۴ ۶۲ الضحی ۱
۶۳ الانشراح ۱ ۶۴ التین ۸
۶۵ البیّنۃ ۲ ۶۶ التکاثر ۱
۶۷ والعصر ۱ ۶۸ الکوثر ۱
فضائلِ حضرت فاطمہؑ ،قرآنی آیات کی چار تقسیمات
وہ تمام آیاتِ قرآنی جن میں حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام کے فضائل ومناقب کاتذکرہ ہے ، اُن کو چار حصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے:
(۱) وہ آیات جن کا سبب نزول حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام ہیں۔
(۲) وہ آیات جن کا شان نزو ل حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام ہیں۔
(۳) وہ آیات جن کے مصادیق خارجی میں سے ایک مصداق حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام ہیں۔
(۴) وہ آیات جن کی باطنی تفسیرحضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام کی ذات گرامی ہے۔
اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ہرقسم سے صرف دوآیات کاتذکرہ کرینگے:
1۔ وہ آیات جن کا سببِ نزول حضرت فاطمہؑ ہیں
(الف) آیتِ تطہیر: عصمت و طہارت حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ۔ ’’اے اہلبیت رسالت!ارادئہ پروردگار یہ ہےکہ وہ تم کو پاک وپاکیزہ رکھے جس طرح پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔‘‘
علماء فریقین نے صحابہ کرام اورتابعین سے متواتر طورپربے شمار احادیث نقل کی ہیں کہ یہ آیت کریمہ اہلبیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ، بلکہ امام فخر الدین الرازی نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر) اورنیشاپوری اورابوبکر حضرمی نے دعویٰ کیاہےکہ علمائے تفسیر و حدیث کااس بات پراجماع ہے کہ یہ آیت کریمہ اہلبیت علیہم السلام کی عصمت وطہارت پرصریح طورپردلالت کرتی ہے۔
اس آیت کریمہ کےسبب نزول کے سلسلہ میں حاکم نیشاپوری اپنی کتاب المستدرک میں صحیح اسناد کے ذریعہ جناب عبداللہ ابن جعفر سے روایت نقل کی ہے:
’’رسول اللہﷺ نے جب آسمان پر رحمت الٰہی کا مشاہدہ کیاتو آپنے حکم دیاکہ میرے اہلبیتؑ یعنی امام علیؑ وجناب زہرا ؑءوامام حسنؑ وامام حسینؑ علیہم السلام کو جمع کیاجائے۔ اورآپ نے سب کو ایک چادر کے نیچے جمع کیا اوردعاکی۔آپ کی دعا کے تمام ہوتے ہی جبرائیل امین آیت تطہیر لیکرنازل ہوئے۔‘‘
محمد بن جریر طبری نے جامع البیان میں اورسیوطی نے الدرالمنثور میں جناب ا م سلمہ کی روایت کو ابوسعید حضرمی سے نقل کیاہے۔ جناب ام سلمہ فرماتی ہیں کہ آیت تطہیرمیرے گھر میں نازل ہوئی ہے۔ میں چادر کے قریب گئی۔ اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا:
’’یارسول اللہ!کیامیں اہلبیت میں سے نہیں ہوں ؟‘‘آپ نے فرمایا: ’’بیشک تم نیک ہواورخیرپرہو اورپیغمبر کی ازواج میں سے ہو، لیکن اہلبیت میں سے نہیں ۔‘‘
عملی طورپررسول اکرم ﷺ کا اہلبیت کی شناخت کرنا
سیوطی نے الدرالمنثور میں اورعبدالرحمان ابن ابی حاتم نےتفسیرالقرآن العظیم میں جناب عبداللہ بن عباس سے روایت نقل کی ہے:
’’ہم نے دیکھاکہ رسول اکرم ﷺ اس آیت کریمہ کے نزل ہونے کے بعد 9 ماہ تک مسلسل نماز کے وقت درحضرت فاطمہ زہراپرتشریف لاتے اور فرماتے: اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ اِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ۔ یعنی اللہ تم پراپنی رحمتیں نازل کرے۔ اسی طرح پیغمبر دن میں پانچ بار تکرار کرتے تھے۔ ‘‘
ان تمام روایات سے ثابت ہوتاہےکہ اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ اہلبیتؑ سے مراد اصحاب کسا ءہیں اوران میں سےایک حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام ہیں جن کی عصمت و طہارت کی گواہی اور ذمہ داری خداوندعالم اس آیت کریمہ سے لے رہاہے۔
(ب) آیتِ ایثار : ایثار حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام
وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ ’’یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے ہیں اگرچہ انکو اسکی شدید ضرورت ہی کیوں نہ ہو ۔‘‘
علامہ حسکانی نے شواہد التنزیل میں ابوہریرہ سے روایت نقل کی ہےکہ ایک شخص خدمت پیغمبر اکرمﷺ میں حاضر ہوااوراس نے آکرکچھ کھانے کو طلب کیا۔ جب آپنے دیکھاکہ آپ کی زوجہ کے گھر میں اس شخص کوکھلانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے، توآپ نے فرمایا:’’کون ہے جو اس رات اس شخص کواپنا مہمان قراردے؟‘‘
مولائے کائنات علی ابن ابوطالبؑ نے فرمایا:’’یارسول اللہ! میں‘‘ پھرآپ اس کو لے کراپنے گھر تشریف لے گئے اور حضرت فاطمہ زہرا کو جاکر اس کے بارے میں بتایا۔ آپ نے فرمایا:’’اے علی! ہمارے گھر میں بچوں کے کھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، لیکن میں مہمان کو اپنے اوپرمقدم سمجھتی ہوں ۔‘‘
مولائے کائنات نے مہمان کیلئے چراغ روشن کیا اورمہمان کوکھانا کھلایا۔ جب وہ سیر ہو چکا تو جبرائیل امین یہ آیت لیکر پیغمبر اکرمﷺ کی خدمت میں نازل ہوئے۔
2۔ وہ آیات جن کا شانِ نزول حضرت فاطمہؑ ہیں
(الف) آیتِ مودّت: حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام سے مودت اجر رسالت ہے۔
قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ ۔ ’’اے پیغمبر!ان سے کہہ دیجئے کہ میں کوئی اجر رسالت نہیں چاہتاسوائے اس کے کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو ۔‘‘
فریقین نے متعدد روایات صحیح کے ذریعہ مودت اہلبیت کوواجب قرار دیاہے اوراس کو اجر رسالت قراردیاہے۔آیت وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى (*)اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى سے یہ بات ثابت ہےکہ نبی اکرم ﷺ نے یہ حکم خدا کے حکم سے دیا کیونکہ یہ نا ممکن ہے پیغمبر بغیر وحی الہی کے کوئی بات کہیں اورمودت اہلبیت کو اجررسالت قرار دیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جن کی مودت کاحکم اس آیت میں دیاجارہاہے وہ بھی نبی ہی کی طرح معصوم ہوں کیونکہ خداوندعالم کسی گنہگار سے مودت کرنے کاحکم نہیں دے سکتا۔ لہٰذاحکم مودت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ جن کی مودت کاحکم دیاجارہاہے وہ بھی پیغمبر کی طرح ہی معصوم ہیں۔
علامہ زمخشری نے ا پنی کتاب تفسیر الکشاف میں تحریر کیاہےکہ جب آیت مودت نازل ہوئی تو پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا: من مات علی حب آل محمد مات شھید االا ومن مات علی حب آل محمد مات مغفورآلہ الا ومن مات علی حب آل محمد مات تائبا۔ ’’جوشخص محبت اہلبیت میں مرجائےوہ شہیدمرا۔ آگاہ ہوجاؤ!جوشخص محبت اہلبیت میں مرتاہے وہ مغفرت شدہ مرتاہے۔ آگاہ ہوجاؤ!جوشخص محبت اہلبیت میں مرتاہے وہ توبہ شدہ مرتاہے۔‘‘
(ب) آیتِ ذی القربی: رسول اللہﷺ کی تنہاوارث حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام ہیں
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ ۔ ’’اے رسول!اپنے قرابت داروں کا حق ادا کردیجئے ۔‘‘
اس آیت کریمہ میں قرابت داروں سے مراد وہی افراد ہیں جن کے بارے میں آیت مودت نازل ہوئی ہے۔ بہت سے علماء و مفسرین اور دانشوران برادران اہلسنت نے صحابہ کرام مثل جناب ابن عباس وابوسعید خدری سے متعدد طرق سے جیساکہ ابن کثیر نے تفسیرقرآن العظیم اورسیوطی نے درمنثور میں اس بات کونقل کیاہےکہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو پیغمبر ﷺ نے حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام کو طلب کیا اورفدک آپ کو عطا کردیا۔
رسول اکرمﷺ نے حکم خداوندی کے مطابق جناب فاطمہ زہراکوفدک عطا کردیا اور اس میں جیسا کہ علمائے شیعہ وسنی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فدک میں رسول اکرم ﷺ کا کوئی شریک نہیں تھا۔
لیکن افسوس! بعد وفات پیغمبرﷺ ایک لاوارث حدیث کاسہارا لیکر جناب فاطمہ زہرا علیہا السلام کو ان کے اس حق سے محروم کردیاگیاجبکہ آپ نے اپنی حقیقت کے اثبات کیلئے دیگرآیات قرآنی سے بھی استدلال کیاتھا۔ لیکن حکومت وقت نے آپ کی ایک بھی دلیل کوقبول نہیں کیا۔
3۔ وہ آیات جن کے مصادیق میں حضرت فاطمہؑ شامل ہیں
(الف) آیتِ صادقین: آیۂ و کونوا مع الصادقین میں ارشاد ہو رہا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ۔ اے صاحبان ایمان صادقین کے ساتھ ہوجاؤ ۔
علامہ طالبی نے اپنی کتاب الکشف و البیان میں امام محمد باقر علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں نقل کیا ہے کہ ای مع محمد و آلہ الطاہرین۔ یعنی حضرت محمد ﷺ اور آپ کی آل طاہرین کے ساتھ ہو جاؤ۔
اسی طرح علامہ حسکانی نے اور علامہ ابن جوزی نے تذکرۃ الخواص میں نقل کیا ہے: کونوا مع الصادقین ای مع علی و اہل بیتہ۔
(ب) آیتِ بیوت نور
آپ جن فضیلتوں میں ممتاز قرار پائی ہیں وہ یہ ہیں کہ آپ کا گھر اللہ کے آسمانی گھروں میں سے ایک ہے ۔ جیسا کہ خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرما رہا ہے:
فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ۔ ان گھروں میں کہ جن کے بارے میں خدا کا حکم ہے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے کہ ان گھروں میں صبح و شام اس کی تسبیح کرنے والے ہیں ۔
ان گھروں میں کہ تمھیں جن کی تعظیم کرنے اور اللہ کا ذکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان میں صبح و شام اللہ کی تسبیح ہوتی ہے۔ علامہ نیشاپوری تفسیر روح الجنان و روح البیان فی تفسیر القرآن میں اور علامہ مجلسی بحار الانوار میں انس بن مالک اور بریدہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول خدانے جب اس آیت کی تلاوت فرمائی تو ایک شخص کھڑاہوا اور رسول خداسے دریافت کیا: ’’یارسول اللہ! یہ گھر کس کاہے؟‘‘آپ نے فرمایا: ’’انبیاءکا گھر ہے۔‘‘خلیفہ اول کھڑے ہوئے اور امام علی کے گھر کی جانب اشارہ کرکے پوچھا:’’کیایہ گھربھی انھیں گھروں جیساہے؟‘‘ تو آپنے فرمایا:’’بیشک! بلکہ یہ ان میں سب سے برتر ہے ۔‘‘
4۔ وہ آیات جن کی باطنی تفسیر حضرت فاطمہؑ کی ذات ہے
(الف) آیتِ لیلۃ القدر: آیت معرفت ( حضرت فاطمۃ الزہراء علیہاالسلام کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے)
تفسیر فرات کوفی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہےکہ آیت اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ میں لیل سے مرادحضرت فاطمۃ الزہرا ء علیہاالسلام ہیں اورالقدر سے مراد ذات پروردگار ہے ، لہٰذاجس کو جناب فاطمہ زہرا کا حقیقی عرفان ہوگیااس نے لیلۃ القدر کو درک کرلیا۔آپکو فاطمہ اسی لئے کہاجاتاہے کہ لوگ آپکی معرفت سے عاجز ہیں۔
البرہان فی تفسیرالقرآن میں علامہ بحرانی نےسورئہ دخان کی ابتدائی آیات کی تفسیرکرتے ہوئے امام موسیٰ ابن جعفر ؑسے ایک روایت نقل کی ہےکہ ایک نصرانی شخص امام کی خدمت میں حاضر ہوا اوراس نے آپ سے متعددسوال کئے منجملہ ان سوالات کے یہ بھی سوال تھا: حم ﴿١﴾ وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ ﴿٢﴾ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ کی تفسیر باطنی کیاہے؟تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ حم سے مراد رسول خدا ﷺ ہیں و الکتاب المبین سے مراد حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور لیلۃ مبارکۃ سے مراد حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام ہیں۔
(ب) آیتِ دین القیمۃ
دوسری آیت کہ جس میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی کو اس آیت کی تفسیر باطنی قرار دیا گیا ہے وہ دین کا استحکام جناب فاطمہ علیہاالسلام اور آپ کی ذریت کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورۂ بینہ کی آیت نمبر ۵ میں پروردگار عالم ارشاد فرما رہا ہے: و ذلک دین القیمۃ ۔
شیخ بحرانی نے اپنی تفسیر البرہان فی تفسیر القرآن میں اس آیت کی تفسیرمیں امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ اس آیت میں دین قیمہ سے مراد حضرت فاطمہ علیہا السلام ہیں۔
شریعت کے سارے اعمال محمد و آل محمد علیہ و علیہم الصلاۃ و السلام کی ولایت و محبت کے بغیر باطل اور بیکار ہیں اور روایات میں اس بات کی جانب اشارہ ملتا ہے کہ دین کا استحکام حضرت فاطمہ علیہا السلام کی ذریت کی محبت سے ہے۔
نتائج و سوالات
ان تمام آیات سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی متعدد آیتیں ہیں کہ جن میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب کو مختلف طریقوں اور مختلف زاویوں سے بیان کیا گیا ہے۔
1۔ صحاح ستہ میں حضرت زہراؑ کی احادیث کی عدم موجودگی کا سوال
لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کے فضائل و مناقب کو علمائے فریقین نے اس طرح سے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے تو صحاح ستہ میں جتنی بھی روایات موجود ہیں ان میں رسول خدا ﷺ کی ان ازواج سے نقل ہیں جو بہت ہی کم عرصہ آنحضرت کے ساتھ رہیں لیکن حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کہ جنھوں نے آنحضرت کی آغوش میں پرورش پائی ان سے ایک بھی روایت ایسی نہیں کہ جس کو صحاح ستہ میں نقل کیا گیا ہو سوائے ایک روایت کے کہ جس کے لئے بھی بخاری نے اپنی کتاب سیرۃ میں لکھاہے: فاطمۃ لھا حدیث واحد متفق علیہ ۔
2۔ 95 دن کے مصائب اور مرثیۂ فاطمیؑ
اور دوسراسوال یہ ہےکہ بعد وفات پیغمبراکرمﷺ جو جنا ب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بروایت 95 دن زندہ رہیں تو ان 95دن میں آپ پرایسے کون سے مصائب پڑے جو آپ کو یہ مرثیہ پڑھنا پڑا:
صبت علی مصائب لو انھا صبت علی الا یام صرن لیالیا
’’بابا! آپ کی وفات کے بعد مجھ پراتنے مصائب پڑے کہ اگردنوں پرپڑتے تو مثل تاریک رات کے ہوجاتے ۔‘‘
مراجع و مصادر
1۔ قرآنِ کریم
2۔الغیبہ، شیخ طوسی
3۔البرہان فی تفسیر القرآن ، سید ہاشم بحرینی
4۔ المستدرک ، حاکم نیشاپوری
5۔جامع البیان، محمد بن جریر طبری
6۔الدر المنثور ، جلال الدین سیوطی
7۔تفسیر القرآن العظیم ، عبدالرحمان بن ابی حاتم
8۔تفسیر الکشاف ، زمخشری
9۔تفسیر قرآن العظیم ، ابن کثیر
10۔شواہد التنزیل ، علامہ حسکانی
11۔ تذکرۃ الخواص ، ابن جوزی
12۔ روح الجنان و روح البیان فی تفسیر القرآن، نیشاپوری
13۔ بحار الانوار ، علامہ مجلسی
14۔ تفسیر فرات، کوفی
15۔صحیح بخاری









آپ کا تبصرہ