۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
حجت الاسلام تقی عباس رضوی

حوزہ/ ہم میں بہت سے لوگوں نے دنیا کمانے کے لیے علم دین اور لباس روحانیت کو بطور پیشہ اختیار کررکھا ہے، جوخود تو خود، پوری قوم کے لئے وبالِ جان سے کم نہیں ہیں!۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے برجستہ عالم دین، محقق و مؤلف اور اہل بیت (ع) فاؤنڈیشن کے نائب صدر حجت الاسلام مولانا تقی عباس رضوی نے کہا کہ ہم میں بہت سے لوگوں نے دنیا کمانے کے لیے علم دین اور لباس روحانیت کو بطور پیشہ اختیار کررکھا ہے، جوخود تو خود، پوری قوم کے لئے وبالِ جان سے کم نہیں ہیں!۔

مولانا موصوف نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ علوم دینیہ کے حصول کا مطلب و مقصد اسلام کا احیا ہے مگر! انہیں دیکھنے اور سننے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنے وجود اور اپنے کاروبار زندگی کا احیا کررہے ہیں انہوں نے ان علوم کو اسلام کے احیا کے لئے نہیں بلکہ دنیا کمانے کے لئے ہی حاصل کیا ہے، روایت کہتی ہے کہ :
جس نے ایسا علم حاصل کیا جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے لیکن اس نے اسکو دنیا کا مال کمانے میں گنوا دیا تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا نیز ایک اور حدیث میں ہے کہ :
جس نے علم اس لیے حاصل کیا تاکہ علماء سے مقابلہ کرے یا احمقوں سے جھگڑے یا اس کے ذریعے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذ ول کرے تو اللہ تعالی اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایسے خود ساختہ علاماؤں سے نہایت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو اپنے غیر مستند افکار و نظریات اور عقائد سے ہماری نئی نسل کے معصوم جوان و نوجوان کو متاثر و مسحور کرکے مقلد و غیر مقلد اور مقصر و غیر مقصر جیسی نحوست کا شکار کر رہے ہیں۔

یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا میں نام و نمود اور شہرت و مقام حاصل کرنے کے لئے اپنے دیرینہ دشمن کو یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہ ہمارے صالح اقدار، دینی عقائد و افکار اور آفاقی تعلیماتِ کا عالمی پیمانے پر مذاق اڑائے اور اسے دنیا والوں کے سامنے مسخ کرکے پیش کرے۔

یہی وہ لوگ ہیں جو دانستہ اور غیر دانستہ طور پر اپنے رفتار و گفتار سے دشمن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر رہے ہیں جن سے دینی علوم کے متعلمین اور فضلاء کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

کھیل ہے ان کا ریاکاری، ہنر مکر و فریب
مذہب تشیع کی صفوں میں اور ان کے مقابلے میں بین الاقوامی دشمنوں نےاخباریت ،نصیریت اور ملنگیت کے فروغ کی ذمہ داری انہی افراد کی گردنوں پر رکھ کر انہیں ہر طرح سے  فنڈنگ کر رہے ہیں۔

یہ کہنا شاید بیجا نہ ہوکہ موجودہ دور میں ہماری صفوں میں جو مذہبی نامساعد حالات اور انتشار معرض وجود میں آرہے ہیں وہ انہی افراد کے مصنوعی عقائد و افکار اور غیر ذمہ دارانہ طرز تفکر و عمل کا نتیجہ ہے۔

منتشر ہونے لگا نظمِ محبت یارو
*کوچہ شوق میں کیا اہلِ ہوَس در آئے

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .