حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، کورونا وائرس کو تبلیغی مرکز نظام الدین سے جوڑ کر تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیاکے خلاف مولانا سید ارشدمدنی صدرجمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پر آج 28 جنوری کو چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ کے روبرو سماعت متوقع ہے۔
جمعیۃ علمائے ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق سپریم کورٹ آف انڈیا کے رجسٹرار کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق کل چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم کے روبرو معاملہ سماعت کے لیئے پیش ہوگا۔ دریں اثناء گذشتہ کل تیسری مرتبہ مرکزی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا گیا، اس سے قبل داخل کردہ دو حلف ناموں پر چیف جسٹس آف انڈیا نے شدید برہمی کا اظہار کیا تھا جس کے بعد سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ وہ اپنی زیر نگرانی حلف نامہ تیار کرواکرعدالت میں داخل کریں گے۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی مدعی ہیں انہوں نے کہا کہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کو حلف نامہ موصول ہوچکا ہے نیز سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے کو بھی اس کی کاپی دی جاچکی ہے جو کل جمعیۃ علماء کی جانب سے بحث کریں گے۔ اس ضمن میں جمعےۃ علمائے ہند نے دعوی کیا کہ مرکزی حکومت نفرت پھیلانے والے بعض نیوز چینلوں (گودی میڈیا)کو بچانا چاہتی ہے جنہوں نے منافرت پر مبنی رپورٹنگ کی تھی نیز مرکزی حکومت نے اپنے حامی اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر کارروائی نہ ہو اس کے لیئے عدالت میں دو مرتبہ ایسا حلف نامہ داخل کیا تھا۔
جس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے اعتراض کیا تھا نیز جمعیۃ علماء ہند پر غیر مصدقہ خبروں کی بنیاد پر پٹیشن داخل کرنے کا الزام بے بنیاد ہے۔ جب کہ جمعےۃ علماء نے اخبارات کی کلپنگ، نیوز چینل کے لنک کوبھی منسلک کیا ہے۔ واضح رہے کہ نفرت پھیلانے والے میڈیا کے خلاف گزشتہ سال چھ اپریل کو عرضی دائر کی گئی تھی اور اس کی آخری سماعت 29 اکتوبر کو ہوئی تھی۔اس پر متعدد مرتبہ سماعت ہوچکی ہے اور سماعت کے دوران عدالت نے اس پر کئی سخت تبصرے بھی کئے ہیں۔