حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین محمد مهدی فلاح خورشیدی نے ریڈیو معارف کے پروگرام "گنج" میں "قرآن و روایات کی روشنی میں خاندان کے تجمل پسندی کی طرف جھکاؤ پر اثرات" کے عنوان سے گفتگو کی۔
انہوں نے قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ" (اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور اولاد تمہارے دشمن ہو سکتی ہیں، لہٰذا ان سے ہوشیار رہو)۔ (سورۂ تغابن: 14)
اس آیت کی تفسیر میں ایک اہم نکتہ پایا جاتا ہے: کبھی انسان اپنی بیوی یا بچوں سے محبت و دلبستگی کے باعث نادانستہ ایسے راستوں پر چل نکلتا ہے جو اس کی زندگی کے الٰہی مقصد کے منافی ہوتے ہیں۔ لہٰذا توجہ رہے کہ اگر بیوی بچوں کی خواہشات تجمل پسندی اور دنیا طلبی سے آلودہ ہوں اور انسان ان کی اندھا دھند پیروی کرے تو وہ ہدایت سے دور ہو سکتا ہے۔
جب اس موضوع کو زیادہ واضح طور پر بیان کیا جائے تو موجودہ زمانے میں عالی شان، پرتعیش اور غیرضروری طور پر بڑی کوٹھیوں اور لگژری گھروں کی طرف رجحان اسی دنیا طلبی کی ایک مثال ہے۔
ایسے خیالات اگر بیوی یا اولاد کے بے جا مطالبات و تخیلات سے جنم لیں تو یہ انسان کو ایک ایسے گڑھے میں لے جاتے ہیں جس کی کوئی انتہا نہیں اور جسے تجمل، سطحی آرام پسندی اور دنیا پرستی سے بھرا گیا ہے۔
اسی آیت کے آخر میں اللہ تعالی فرماتا ہے: "فَاحْذَرُوهُمْ"، یعنی ان کے دنیاوی نظریات و خواہشات سے ہوشیار رہو۔
یہ قرآنی ہدایت ہمیں اطراف کے اثرات سے ہوشیار رہنے اور اپنے دینی شعور کو بیدار رکھنے کی دعوت دیتی ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے اس مفہوم کی تائید کرتے ہوئے فرمایا: "كلّ بناءٍ ليسَ بكِفافٍ فهو وبالٌ على صاحبه يومَ القيامة" (جو عمارت ضرورت سے زائد بنائی جائے وہ قیامت کے دن اپنے مالک کے لیے وبال بنے گی)۔
ایک اور روایت میں فرمایا: "من بنى فوقَ مسكنهِ كلّفَ أن يحملَه يومَ القيامة" (جو کوئی اپنی ضرورت سے زائد رہائش گاہ بنائے جیسے بغیر ضرورت کے ایک اضافی منزل بنائے تو اسے قیامت کے دن اس کا بوجھ اٹھانے کا حکم دیا جائے گا)۔
یہ عبارات ہمیں خبردار کرتی ہیں کہ اسلام میں زندگی گزارنے کا معیار اعتدال، ضرورت، قناعت اور اسراف سے پرہیز ہے۔
پس اسلام کی نظر میں گاڑی، مکان یا آسائش کے دیگر وسائل کی اصل بنیاد "حقیقی ضرورت اور دینی عقل" ہے نہ کہ نمود و نمائش یا دکھاوا، مقابلہ بازی یا اطراف کے افراد کی خواہشات۔









آپ کا تبصرہ