۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
تصاویر / دیدار نماینده ویژه ایران در امور افغانستان با آیت الله العظمی جوادی آملی

حوزہ / تفسیر قرآن کے ممتاز استاد نے کہا: کوئی بھی حق والدین کے حق سے زیادہ اہم نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی نعمت خلقت و مخلوقِ الہی ہونے کی نعمت سے بڑھ کر نہیں ہے۔خلقت؛ خدا کا کام ہے لہذا س راستے کے آغاز و اختتام میں فیض الہی سے بہرہ مند ہونے کو مدنظر رکھنا چاہئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ جوادی آملی نے حوزہ اور یونیورسٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں"دین اور خاندان کے درمیان تعلق کے بارے میں نئے نتائج"کے عنوان سے منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: کوئی بھی حق والدین کے حق سے زیادہ اہم نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی نعمت خلقت و مخلوقِ الہی ہونے کی نعمت سے بڑھ کر نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا: خاندان کے اصول حقیقی اور غریزی ضرورت (خواہشات) سے تشکیل پاتے ہیں اور ابتدائے تخلیق میں خدا نے حضرت آدم کو حضرت حوا کے ساتھ اور حضرت حوا کو حضرت آدم کے ساتھ پیدا کیا اور فرمایا: یہ دونوں ایک حقیقت ہیں جو کبھی مرد کی صورت میں اور کبھی عورت کی صورت میں سامنے آتی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔ اس لیے ہر مرد کی قطعی ضرورت عورت ہے اور ہر عورت کی قطعی ضرورت مرد ہے۔

اس مرجع تقلید نے اس بات کی وضاحت میں کہ "کوئی بھی حق والدین کے حق سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی نعمت خلقت و مخلوقِ الہی ہونے کی نعمت سے بڑھ کر نہیں ہے"، کہا: چونکہ خلقت؛ خدا کا کام ہے لہذا س راستے کے آغاز و اختتام میں فیض الہی سے بہرہ مند ہونے کو مدنظر رکھنا چاہئے۔

حضرت آیت الله جوادی آملی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ خداوند متعال نے اپنے فضل و کرم کو خاندانی ڈھانچے میں مستقر کر رکھا ہے، کہا: خاندان کی تشکیل کا واحد عنصر خاندان کو برقرار رکھنا اور اپنے خاندان سے بہرہ مند ہونا ہے اور قیامت میں ان فوائد کا نتیجہ مودتِ الہی کے حصول کی صورت میں ملے گا۔

اس مرجع تقلید نے آخر میں کہا: درست ہے کہ خانہ داری اور توقعات کو ایڈجسٹ کرنا ایک مشکل کام ہے کہ جسے اگر صحیح طور پر انجام دیا جائے تو ایسے خاندان کا بچہ ملک و قوم کی حفاظت کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ خاندانی تعلقات میں سب سے زیادہ نرم لہجہ اہمیت رکھتا ہے چونکہ جب بھی میاں بیوی میں سے کوئی بھی دوسرے پر اپنی بات کو مسلط کرتا ہے تو اس سے خاندان کی بنیادیں کمزور پڑ جاتی ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .