حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) ضلع لاہور کے زیراہتمام "بیداری امت نمائندہ اجلاس" منعقد ہوا جس کی صدارت قائد جمعیت ڈاکٹر ابوالخیر زبیر نے کی جبکہ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی، مولانا زاہدالراشدی، سید صفدر شاہ گیلانی، خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، پروفیسر عبدالغفور، ڈاکٹر راغب نعیمی، پیر محمد اصغر نورانی، حافظ نصیر نورانی، مولانا امیر حمزہ، مولانا عبدالروف فاروقی، مولانا محمد علی نقشبندی، سید عقیل انجم قادری، پروفیسر زوار مہروی، علامہ نعیم جاوید نوری، ملک شہباز، مفتی نعمان قادر مصطفائی، مفتی عمران حنفی، مفتی طاہر شہزاد سیالوی، صاحبزادہ حفیظ اظہر، پیر بشیر احمد یوسفی، مولانا عبداللہ ثاقب پیر معاذ المصطفی قادری، مولانا بابر فاروق رحیمی، صاحبزادہ محمد فاروق قادری سمیت تمام مکاتب فکر کے متعدد علما و مشائخ نے شرکت کی۔
مقررین کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی تمام تر سازشوں کو وحدت امت کے ذریعے ناکام بنا دیا جائے گا، اسلام اور صہیونیت ہمیشہ سے دو مقابل قوتیں ہیں، اسلام کے آغاز سے ہی یہ معرکہ جاری ہے، بنی اسرائیل کے نافرمانوں نے آج تک اسلام کی حقانیت کو تسلیم نہیں کیا، صہیونیت نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کیلئے خطرہ ہے بلکہ پورے عالم انسانیت کیلئے خطرہ ہے جو کہ تمام انسانوں کو اپنا غلام بنانا چاہتی ہے، جبکہ اسلام انسانیت کو آزادی اور ان کے جائز حقوق عطا کرنا چاہتا ہے، اسرائیل مسلمان ممالک کو آپس میں لڑا کر کمزور کرنا چاہتا ہے اور کچھ مسلم ممالک کو سودی، معاشی جکڑ بندیوں میں جکڑ کر اپنا ایجنڈا منوانا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام صورتحال میں سب سے فکر انگیز بات یہ ہے مسلم دنیا کے بڑے حصے خصوصاً عربوں کو امریکہ اور اسرائیل نے مکمل طور پہ اپنے زیر اثر کر لیا ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ سعودی عرب جیسے ملک جو کہ آخری وحی کے نزول کی سرزمین اور جہاں حرمین طیبین ہیں، وہاں مندروں کی تعمیر، میوزک کنسرٹ کا انعقاد جبکہ اسلام کی دعوت و تبلیغ پہ پابندی ہے۔ کورونا کی آڑ میں حرمین طیبین میں مسلمانون کے داخلے پر قدغن لگائی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب مادر پدر آزادی کے تحت ہزاروں مردو زن کا ریاض و جدہ میں میوزیکل کنسرٹس کا انعقاد امت مسلمہ کی بنیادوں میں خودکش حملہ ہے۔ اس ساری فحاشی کے پیچھے صیہونی اسرائیل کی ایسی شاطرانہ چالوں کو سمجھنا ہوگا اگر یوں کہا جائے اب قبلہ اوّل ہی نہیں مسلمانوں کا موجودہ قبلہ بھی اسرائیل کی سازشوں کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حکمرانوں خصوصا وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ایک جانب ریاست مدینہ کی تکرار جبکہ دوسری طرف مسلسل غیراسلامی قوانین کا بننا کھلا تضاد ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ عمران خان کے نا تجربہ کار حواریوں نے وطن عزیز کو مکمل طور پہ تباہ حال کر دیا ہے، مسلسل ناکام معاشی پالیسیوں سے ملک میں مہنگائی کا آئے روز ایک نیا سونامی آتا ہے، غریب عوام غربت و افلاس کی چکی میں پس رہی ہے۔ پاکستانی عوام ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر ہے عالمی صیہونی سازش کے تحت مسلمانوں کو فروعی اختلافات اور فرقہ ورانہ مسائل میں الجھا کر ملک میں الحاد کو فروغ دیا جا رہا ہے، جس کی ایک مثال اہم اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر قادیانی، افسروں کا تقرر ہے، قادیانی اسلام اور ملک پاکستان کے کھلے دشمن ہیں، مدارس دینیہ مساجد اور خانقاہوں کو انتظامی و معاشی شکنجہ میں جکڑا جا رہا ہے، پاکستان کی مسلسل سیاسی و معاشی ابتری کی پیچھے بھی یہودی اور قادیانی لابی کی سازش کی بدبو آ رہی ہے، ایسے حالات میں وطن عزیز کے سنجیدہ اور محب وطن حلقے روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی ابتری پر اس تشویش کا شکار ہیں کہ کہیں ہمارے حکمران اب یہ یوٹرن نہ لے لیں کہ اب پاکستان کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا مجبوری ہے۔
مقررین نے کہا کہ جے یو پی کے زیراہتمام اس نمائندہ اجلاس کے ذریعے تمام مکاتب فکر کی دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین علما و مشائخ اور دانشوران ملت امت مسلمہ کے ہر فرد کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ تمام مسلمان اپنی وحدت اور بیداری کے ذریعے یہود و ہنود کی ان سازشوں کا مقابلہ کرکے انھیں ناکام بنا دیں۔ اجلاس میں پوری مسلم اُمّہ اور عالم انسانیت سے مطالبہ کیا گیا کہ فلسطین کے مقبوضہ و مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل یا اس کے کسی گماشتے کی طرف سے کسی بھی مسلم ملک پر جارحیت کو قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ مری کہ تمام فوت شدگان کیلئے دعا کرتے ہوئے حکمرانوں اور متعلقہ اداروں کی نالائقی اور غفلت کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ سانحہ مری سے یہ بالکل ثابت ہو چکی ہے کہ حکومت مہنگائی کنٹرول نہ کرنے کی طرح عوام کے جان و مال کے تحفظ میں بھی بُری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی بے بسی سے صاف ظاہر ہو گیا ہے کہ اب چہرے نہیں نظام بدلنا ہوگا اور وطن عزیز کی تمام محب وطن اور محب اسلام دینی و سیاسی قوتوں کو متحد ہونا ہوگا۔