۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 377185
9 فروری 2022 - 20:52
جواد حبیب

حوزہ/ جدید انسان کی نظر میں حصول علم کا مقصد مال و دولت کمانا ہے اور سرمائے میں اضافہ کرنا قرار پایا ہے، آج کا جدید انسان ان علوم کو سیکھتا ہے جن میں وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کما سکے اور ان علوم سے روگردانی کرتا ہے جسمیں کمائی نہ ہو۔

تحریر : محمد جواد حبیب

حوزہ نیوز ایجنسی ।جدید انسان اور قدیم انسان سے مراد کون ہے ؟ قدیم انسان کے عقاید و افکار کیا تھے ؟ جدید انسان کے عقاید اور افکار کیا ہیں ؟ انسان کے اوپر کس چیز کی حکومت ہوتی ہے ؟ محققین بتاتے ہیں کہ انسان کے اوپر اسکے افکار اور عقاید کی حکومت ہوتی ہے اگر وہ مسلمان ہے تو اس پر اسلام کے عقاید حاکم ہونگے اور اگروہ ہندو ہے تو اس پر ہندو مذہب کے عقاید حاکم ہونگے اور عیسایی ہو تو عیسائیت ،یہودی ہو تو یہودیت ، نصری ہوتو نصریت ،مجوسی ہو تو مجوسیت حاکم ہوگی لیکن اگرانسان ملحد ہو تو اس پر الحاد کی حاکمیت ہوگی اور الحاد یت ،جدیدیتmodernism کا نیا دین ہے جسکی کا منشاء و منبع مغربی افکار و عقاید ہیں ۔ قدیم انسان سے مراد اٹھارہویں صدی سے پہلے کا انسان ہے اور جدید انسان سے مراد اٹھارہویں صدی کے بعد کا انسان ہے اس مقالہ میں ان دونوں انسانوں کے افکار و عقاید کا جائزہ لینا ہے ۔

جب تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا کی ٢٣ روایتی، الہامی دینی تہذیبوں میں انسان عبد تھا۔ وہ اس وسیع اورعریض کائنات میں خدا کے آگے سر بسجود تھا جو اپنی آخرت کی اصلاح کے لیے فکر مند اور مستقبل کی حقیقی زندگی کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ لیکن اٹھارہویں صدی میں تحریک روشن خیالی Enlightenmentکی آمد کے بعد یہ عبد جو بندگی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا یکایک آزاد ہوگیا Mankind بندے سے آزاد فردHuman being ہوگیا ۔اب اسکا کوئی خالق نہیں بلکہ وہ خود خالق ہے اسکا کوئی خدا نہیں بلکہ خود خدا ہے اس پر کسی کی حاکمیت نہیں وہ کسی کا پیرو نہیں بلکہ اس پر اپنی خواہشات کی حاکمیت ہے اور نفس پرستی اسکاشعار ہے ۔ سید خالد جامعی ،کراچی یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنی تحقیق "جدیدیت کیا ہے اور کیا نہیں؟" اس میں جدید انسان کے کچھ عقاید و افکار کا ذکر کرتے ہیں ۔

انسان اٹھارہویں صدی سے پہلے اور اٹھارہویں صدی کے بعد:

1۔ قدیم تہذیب و تمدن کا انسان کسی نہ کسی بالاتر و برتر اعلیٰ ہستی کی پرستش کرتا تھا بندگی اس کی ایک اعلی خصوصیت اور اعزاز تھی ۔ /لیکن جدید انسان اب خود اپنی پرستش کرنے لگا اور بندگی غلامی کی علامت بن گی ہے۔

2۔ علم کا سرچشمہ سنت ،روایت ، وحی اور خارجی ذرایع ہوتے تھے ۔یعنی انسان ہمیشہ علم کے لئے خارج کا محتاج تھا / لیکن جدید انسان کی نظر میں علم کا سرچشمہ خود انسان یا اسکی عقل ہے اور علم کے لئے وہ عقلیت Rationalism کا محتاج ہے کسی باہر کی منبع پر کوئی عقیدہ نہیں رکھتا ہے بلکہ اسکو خرافات اور جہالت سے تعبیر کرتا ہے۔

3۔ کائنات پر خدا کی حاکمیت تھی اس پر قانون الہی ،سنت الہی حاکم تھی لوگ قانون الہی کے پیرو تھے ۔ / لیکن جدید انسان کی نظر میں کائنات پر انسان کی حکومت ہے اور لوگ انسانی قانون کے پیرو ہیں کسی غیر انسانی قانون کی حاکمیت کا کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
4۔ حصول علم کا مقصد حقیقت الحقائق کا علم تھااورحقائق کی پہچان ، حقائق کی دریافت ایک انسان کا ہدف تھا وہ اس کے حصول کے لئے اپنا سارا سرمایہ،مال و دولت خرچ کرتاتھا یہاں تک کہ اپنی چان تک کی بازی لگاتا تھا ۔ /لیکن جدید انسان کی نظر میں حصول علم کا مقصد مال و دولت کمانا ہے اور سرمایے میں اضافہ کرنا قرار پایا ہے اس آج کا جدید انسان ان علوم کو سیکھتا ہے جن میں وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کما سکے اور ان علوم سے روگردانی کرتا ہے جسمیں کمائی نہ ہو۔

5۔ قدیم انسان روحانیت ،معنویات اور مابعدالطبیعات(Metaphysic) کو مادیات پر فوقیت دیتا تھا طبیعی اور مادی چیزوں کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ /لیکن جدید انسان مادیات کو معنویات پر فوقیت دیتا ہے معنویات اور ما بعد الطبیعیات جہالت شمار کیا جاتا ہے علامہ اقبال مغربی تہذیب کی ایک بڑی خامی مادیت پرستی کوسمجھتے تھے کہ اہلِ یورپ مادی زندگی کی لذتوں میں ایسے منہمک ہوچکے ہیں کہ انسانی اخلاقی اور روحانی اقدار کی کوئی قدر و قیمت نہ رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں وہ اعتدال و توازن اور ہم آہنگی قائم نہ رہ سکی جو ایک صحت مند معاشرے کے لیے ضروری ہے۔علامہ اقبال کا عقیدہ یہ تھا کہ خالص مادیت کی بنیادوں پر کسی تہذیب کو استحکام نصیب نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ علامہ اقبال مغربی تہذیب کو یوں بیان کرتے ہیں:یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے / حق یہ ہے کہ چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات

یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت / پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

بے کاری و عریانی و میخواری و افلاس / کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

6۔ انسان ہدایت کے لئے خدا،پیامبر، نبی اور علماء کا محتاج تھا ہر آدمی علم میں خود کفیل نہ تھا۔ / لیکن جدید انسان اپنی ہدایت کے لیے صرف اپنی طرف دیکھنے کا پابند ہ ہے خدا، پیامبر اورباہر کے ذرایع کا انکار کرتا ہے اوراپنے کو خود کفیل سمجھتا ہے ۔

7۔ آخرت کو دنیا پر فوقیت تھی ہرکام آخرت کے لئے کرتا تھا دنیا انکی نظر میں فانی تھی آخرت کی زندگی ابدی تھی انکی نظر میں الدنیا مزرعۃ الآخرۃ اور الدنیا دارالعمل و الاخرۃ دار الحساب تھی ۔ / لیکن جدید انسان دنیا کو آخرت پر فوقیت دیتا ہے دنیا کو لافانی تصور کرتاہے سارا کام دنیا کو نظرمیں رکھ کر کرتا ہے آخرت کے عقیدہ کو جہالت شمارکرتاہے ۔
8۔ قدیم انسان کی نگاہ میں دنیوی زندگی کا مقصد آخرت میں سعادت اور کامیابی تھا۔ / لیکن جدید انسان کی نظر میں دنیوی زندگی کا مقصد صرف اور صرف دنیا میں کامیابی حاصل کرنا ہوتاہے ۔
9۔ انسان خدا کی عبادت کرتا تھا۔ اس لئےعبادت گاہ جاتا تھا۔مسجد، معبد بناتاتھا مساجداور معابدکا احترام تھا اسکی حفاظت اپنا دینی فرض سمجھتاتھا سب لوگ صبح وشام وہاں جاتےعبادت، دعاو مناجات کرتے تھے مساجد اور معابدمیں رونق نظر آتاتھا /لیکن جدید انسان خود اپنی عبادت کرتا ہے لہذا کسی عبادت گاہ میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ہے اس لئے آج کل مساجد، معابدبہت سے ممالک اور مناطق میں ویران اورزمین بوس ہوگی ہیں یا مساجد اور معابد میں جانے والے کم ہوگئے ہیں انکا احترام باقی نہیں رہا ہے ۔آج کا انسان مسجد و معبد بنانے کی جگہ کلب،تھیٹر ،سینماحال اور شراب خانہ بناتا ہے ۔
10۔ علم کی بنیاد یقین پرتھی۔ /لیکن جدیدیت میں علم کی بنیاد ڈیکارٹ کے بعد شک پر رکھی گئی ایسا طریقہ علم جو شک سے یقین تک پہنچائے لہٰذا ڈیکارٹ کے بعد تمام فلسفی ریب و شک میں ہی گرفتار رہے۔
11۔ قدیم انسان ما بعد الطبیعیات(Metaphysic) پر ایمان رکھتا تھا وہ پانچ بنیادی سوالات سے بحث کرتاتھا۔ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، کہاں جاؤں گا، مجھے کس نے پیدا کیا، میرا انجام کیا ہے؟ مولاامام علی علیہ السلام کا فرمان ہے: «رَحِمَ اللّهُ اِمْرَاً عَلِمَ مِن أینَ وَفی أینَ وَ إلی أینَ» خدا رحمت کرے اس شخص پر جو یہ جانتا ہو کہ وہ کہاں سے آیا ہے کہاں ہے اور کہاں جانا ہے / لیکن جدید انسان کی نظر میں یہ سارے سوالات غلط ہے یا یوں کہا جائے کہ انکے پاس اسکا جواب نہیں ہے وہ تو صرف دنیوی زندگی پر ایمان رکھتا ہے باقی ما بعد الطبیعیات چیزوں کو تسلیم نہیں کرتا ہے ۔
12۔ حفظ مراتب کی تہذیب تھی قوم ، قبیلہ ،خاندان اور رشتہ داری کا عزت و احترام تھا بزرگوں کا احترام تھا صلہ ارحام پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی۔ / لیکن جدید انسان کی نگاہ میں ان اقدار کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے وہاں خاندانی زندگی پسماندگی کا شکار ہے وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ فرد آزاد ہے اورسب افراد مساوی ہیں اس بناپر کسی کا عزت و احترام کرنا ضروری نہیں ہے ۔
13۔ قدیم انسان تسخیر قلوب کرتا تھا۔لوگوں کے دلوں پر راج کرتا تھا ، اخلاقی اقدار کی حاکمیت تھی اس بناپر کسی کا دل دکھانا حرام سمجھتاتھا کسی کی بے احترامی کرنا حرام تھا مزدورں کی مزدوری اس کے پسینہ سوکھنے سے پہلے دیاکرتا تھا ،مریضوں کی عیادت کے لئے جاتا تھا حکیم مریضوں کے علاج کرنے اپنا فرض سمجھتا تھا استاد تعلیم و تربیت کرنا اپنی زمہ داری سمجھتا تھا بچہ والدین کے لئے سہار بنتا تھا حلال و حرام کی رعایت ہوتی تھی رشوت خواری ،سود خواری وغیرہ حرام تھی /لیکن جدید انسان تسخیر کائنات میں مصروف ہوگیا۔مال دولت کی ہوس نے اسکو سب کچھ کرنے پر راضی کردیا ہے اب وہ ہر کام جسمیں اسکا فایدہ ہو انجام دیتا ہے حلال ،حرام کی رعایت نہیں ہوتی ہے مزودں کو انکے حقوق نہیں ملتے بچے والدین پر پیسہ خرچ کرنا سرمایہ کا نقصان سمجھتے ہیں اس بنا پر بہت سے ماں اور باپ بچوں کے ہوتے ہوئے بے سہار نظر آتے ہیں۔
14۔ خیر و شر کے پیمانے متعین تھے۔ہر وہ کام جو انسان کے فلاح و بھبود کے لئے ہو وہ خیر اور جس میں انسان اور سماج کا نقصان ہو وہ شر تھا اس کا تعیین خداوند کرتا تھا پیامبر فرماتے ہیں" خیرالناس انفھم للناس" بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فایدہ پہونچائے۔ / لیکن جدید انسان خیر و شرکو انسانی عقلیت (Rationalism)سے دریافت کرتا ہے اس لئے ہر زمانے کے خیر و شر مختلف ہوسکتے ہیں۔
15۔ خدا کو تسلیم کرنے کے باعث لوگ ثواب اور عذاب کے قائل تھے گناہ کا وجود تھا اور ہر گناہ Guilt خلش ہوسکتا تھا۔ / لیکن جدید انسان نے خدا کو اپنی زندگی سے خارج کردیا ہے تو گناہ و ثواب بھی بے معنی ہوگئے گناہ Sin کی جگہ Guilt خلش نے لے لی۔ واضح رہے کہ ہر خلش گناہ نہیں ہوتی۔
16۔ گناہ گار لوگ نیک لوگوں سے رجوع کرتے تھے استغفار اور توبہ کرتے تھے کفارہ دیتے تھے ۔ / جدید انسان جو خلش میں مبتلا ہوتا ہے وہ نفسیاتی ماہرین اور ان کے کلینک سے رجوع کرتا ہے سائیکو تھراپسٹ کے پاس جاتا ہے اس سے اپنا علاج کرواتا ہے۔
17۔ عورت حیا دار تھی عفت و عصمت اور حجاب اس کا زیور تھا۔ / لیکن اب حیاء کی جگہ شرم Shame اور خلش Guilt نے لے لی۔ حیاء Modesty تہذیب سے خارج ہوگئی۔عورت ایک برینٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔
18۔ لوگ خدا کی معرفت، قربت، خوشنودی کو سب سے اہم کام سمجھتے تھے۔ / لوگ دولت سرمایہ کے حصول اور خواہش نفس کی تکمیل کو سب سے اہم کام سمجھنے لگے۔
19۔ لوگ ایثار قربانی، خدمت، محبت میں لذت محسوس کرتے تھے۔ / لوگ ان اقدار کو احمقانہ سمجھنے لگے۔
20۔ فرد خاندان، قبیلے، گروہ میں رہ کر اجتماعیت کے ذریعے اپنا اظہار کرتا تھا اس کی شناخت وہ خود نہیں تھا۔ / ہر فرد آزاد ہوگیا ہے انفرادیت پرستی liberalism نے سب کو جدا جدا کردیا اب لوگوں کی شناخت پیشے سے ہوتی ہے انجینئر، ڈاکٹر، سائنس داں، پروفیسر، ٹیچر، وغیرہ اسی لیے لوگ وزیٹنگ کارڈ مانگتے ہیں۔
21۔ عالم اسے کہا جاتا تھا جس کی صحبت میں بیٹھ کر خدا یاد آئے۔ دنیا، دنیا کی لذتیں، نعمتیں حقیر نظر آنے لگیں اور خدا کی محبت تمام محبتوں پر غالب آجائے۔ / عالم اسے کہا جاتا ہے جو دنیا کا علم سکھاسکے جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جاسکے اس کے سوا تمام علوم جن سے پیسہ نہ ملے وہ جہالت قرار پائے۔

21۔ قدیم انسان کے اوپر دین کی حاکمیت تھی / لیکن جدید انسان دین کا انکار کرتا ہے

اس کے علاوہ اور بھی افکار اور عقاید ہیں جن کی جانب محققین نے اشارہ کیا ہے خلاصہ یہ کہ خدا ہم سب کو ان آفتوں اور مصیبتوں سے بچاے اور دیندار، بااخلاق، مخلص،غیرتمند،باحیاء بنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔بیہودگی ،لاپروائی ،سستی ، کاہلی ،بے ایمانی ،بے دینی اور بداخلافی سے دور رکھے ۔آمین ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .