۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
سورج مغرب سے طلوع ہو تو ہرج کیا ہے!؟

سوال یہ ہے کہ اگر افکار و عقائد اور نظریات بالکل تجربہ شدہ، درست، مجرب اور مستند ہوں، لیکن وحی اور دین کے بغیر ہوں تو انہیں اپنانے میں ہرج کیا ہے!؟ مثلاً اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر ایک مغربی نظام تعلیم ہمارے ہاں کی بے روزگاری کو ختم کر دے، ہمارے جوانوں کو دنیا بھر میں نوکریاں دلوا دے، ہمارے اقتصادی مسائل کو حل کروا دے، ہمارے کارخانوں کی برآمد بڑھا دے اور ہماری فصلوں کی پیداوار کو چند برابر کر دے۔۔۔ کیا ہم ایسے نظامِ تعلیم کو صرف اس لئے ترک کر دیں کہ اسکا دین اور وحی سے کوئی رابطہ نہیں ہے!؟

تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

حوزه نیوز ایجنسی| مغرب افکار کی سرزمین ہے، وہاں ہر روز جدید سوچ جنم لیتی ہے، روزانہ کی بنیاد پر  حیات و کائنات کے نئے آفاق دریافت ہوتے ہیں، ادراک کے شجر پر نئے شگوفے کھلتے ہیں اور پرانے پھول جھڑتے ہیں، منطق کی ندی میں ٹھہراو نہیں ہے اور بشر کی عقل  پر پہرے نہیں ہیں، وہاں چمنستان علم میں ہمیشہ بہار ہی بہار ہے اور اور فکر کے سمندر کے گرد ساحل نہیں ہے۔ گویا مغرب ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں انسان کے دماغ کا شجر دائم ہرا رہتا ہے، اس سرزمین میں ہر لمحے آسمان کے قطروں کی طرح افکار کی بارش ہوتی ہے اور زمین کی فصلوں کی طرح نظریات اگتے ہیں۔ ہمارے عہد میں یہ سرزمین، افکار، تخیل، نظریات اور ادراک کی سرزمین ہے، آج اس سرزمین کا حُسن یہ ہے کہ اس میں انسان نے اپنی زندگی کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کیلئے  بہترین افکار و نظریات کو تولید کر لیا ہے، یہ افکار و نظریات جہاں علمی اور تجربہ شدہ ہیں، وہیں سارے عالم بشریت کی خدمت کیلئے ہر وقت دستیاب ہیں۔

دوسری طرف ہمارے نزدیک اس سرزمین میں ایک عیب اور نقص بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سرزمین کا  مفکر، آسمانی ادیان اور وحی سے بالکل بے نیاز ہوکر سوچتا ہے۔ پھر یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ وہ فکر اور عقیدہ جو آسمانی ادیان اور وحی سے جدا ہو جائے، اسے الحاد اور سیکولرازم کہتے ہیں۔ یعنی مغرب کی سرزمین پر جنم لینے والے افکار و نظریات الحادی اور سیکولر ہیں۔ ان کے تعلیمی، سیاسی، اجتماعی، مادی، حکومتی، عسکری، جنگی، انقلابی، بین الاقوامی۔۔۔ سب کے سب نظام بھی الحادی ہیں۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ ہم مغربی نظریات سے منہ نہیں موڑ سکتے، چونکہ ان پر حضرت انسان نے برس ہا برس سوچا ہے، تجربات کئے ہیں اور ان کی بنیاد پر کئی مرتبہ دنیا کو اکھاڑا اور پچھاڑا  ہے۔ گذشتہ چند صدیوں میں مغربی مفکرین کے تولید کردہ نظریات نے ساری دنیا میں اپنا سکہ منوایا ہے، حتیٰ کہ انہوں نے انسانی اقدار، ممالک کے جغرافیے، قوموں کے قبلے نیز دوستی اور دشمنی کے معیارات تک تبدیل کرکے دکھائے ہیں۔ چنانچہ آج ہر جگہ مغرب جارح ہے اور مشرق مدافع ہے۔

ہم اس وجہ سے بھی مغربی نظریات سے نظریں نہیں چرا سکتے، چونکہ جدید ٹیکنالوجی بھی اسی افکار و نظریات کی سرزمین پر ظہور پذیر ہوئی ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، اب مغرب کے الحادی اور سیکولر نظریات ہماری رگ رگ میں دوڑ رہے ہیں، جدید ٹیکنالوجی کی بدولت آج موبائل کی صورت میں ہر وقت ہماری جیبوں میں مغربی نظریات پہنچ رہے ہیں، یہ نظریات شعر و شاعری، کارٹونوں، ڈراموں اور فلموں کی شکل میں ہمارے انفرادی اور اجتماعی اخلاق اور کردار میں لحظہ بہ لحظہ سرایت کر رہے ہیں۔ گویا مغرب پل پل میں مشرق کو فتح کرتا جا رہا ہے اور فتح کے اس عمل میں نہ گولی چل رہی ہے اور نہ ہی خون بہہ رہا ہے بلکہ مشرقی دنیا اپنی رضا و رغبت کے ساتھ مغرب کے سامنے اپنا سرخم کئے جا رہی ہے۔ آج علم و ہنر کا سورج مغرب سے طلوع کر رہا ہے اور مشرق ایک بھکاری کی طرح ہاتھ باندھے کھڑا ہے!

اب ملحد، مشرک، سیکولر اور زندیق بننے کیلئے مشرق سے مغرب کا سفر کرنے کی ضرورت نہیں رہی، اب مغربی علوم و فنون کا ریلا اہل مشرق کی لائبریریوں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ان کے دلوں اور دماغوں میں گردش کر رہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس گردش کو محسوس کرتا ہے اور کسی کو اس گردش کا بھی احساس نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر افکار و عقائد اور نظریات بالکل تجربہ شدہ، درست، مجرب اور مستند ہوں، لیکن وحی اور دین کے بغیر ہوں تو انہیں اپنانے میں ہرج کیا ہے!؟ مثلاً اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر ایک مغربی نظام تعلیم ہمارے ہاں کی بے روزگاری کو ختم کر دے، ہمارے جوانوں کو دنیا بھر میں نوکریاں دلوا دے، ہمارے اقتصادی مسائل کو حل کروا دے، ہمارے کارخانوں کی برآمد بڑھا دے اور ہماری فصلوں کی پیداوار کو چند برابر کر دے۔۔۔ کیا ہم ایسے نظامِ تعلیم کو صرف اس لئے ترک کر دیں کہ اس کا دین اور وحی سے کوئی رابطہ نہیں ہے!؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .