حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے کاشان یونیورسٹی کے اساتذہ کے ایک وفد سے ملاقات میں “حوزہ اور یونیورسٹی” کے درمیان پیوند کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا: جب تک “عالم اور علم” کے درمیان تعلق کو صحیح طور پر بیان نہ کیا جائے اس وقت تک حوزہ و یونیورسٹی کا اتحاد بھی ممکن نہیں۔ علم ایک “مثلثی حقیقت” ہے: ایک طرف سے اس کا تعلق آغاز سے ہے کہ معلوم کو کس نے خلق کیا؟ دوسری طرف اس کا تعلق انجام سے ہے کہ کیوں خلق کیا؟ اور ایک درمیانی پہلو ہے کہ وہ حقیقت کیا ہے؟
انہوں نے کہا: علم ایک نور ہے جو خداوند جس کے دل میں چاہے ڈال دیتا ہے لیکن آج بعض علمی معاشروں میں جو علم رائج ہے، وہ “سردخانے کا مردہ علم” ہے؛ ایسا علم نہ عظیم عالم پیدا کرتا ہے، نہ انسان سازی کرتا ہے، بلکہ فقط ایک “ابزار اور آلہ” ہے۔ ہمیں ایک ایسا “زندہ، شہودی اور حیات بخش” علم چاہیے جس کا معلوم، صرف ذہنی معلومات نہ ہو بلکہ وہ حقیقت ہو جو وجود اور خدا سے مربوط ہو۔
حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے کہا: انسان کے لیے پہلا قدم “معرفتِ نفس” ہے۔ جب انسان جان لے کہ وہ ایک “زندہ حقیقت” ہے، کسی خاص مقام سے آیا ہے اور کسی خاص منزل کی طرف جا رہا ہے، تو وہ کبھی خود کو فراموش نہیں کرے گا۔ جب یہ سمجھے گا کہ “میں ہوں، جو ہوں، فنا ہونے والا نہیں بلکہ موت کے ذریعہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہوں”، تب وہ “علم شہودی” تک پہنچے گا۔ ایسی معرفت، انسان کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے، اور ایسا انسان نہ راہ گم کرے گا نہ کسی اور کا راستہ روکے گا۔
انہوں نے مزید کہا: حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے نورانی منطق میں “آزادی” کا مطلب “خواہشات اور شہوات سے رهائی” ہے، نہ یہ کہ انسان ہر طرح کی لذت میں آزاد ہو۔ جیسے ہمارا نظام ہضم بھوک رکھتا ہے لیکن ہر چیز ہمارے لیے مناسب نہیں، ویسے ہی انسان کی خواہشات کو بھی “فطرت اور حقیقت” کے پیمانے پر پرکھنا چاہیے۔









آپ کا تبصرہ