ہفتہ 13 دسمبر 2025 - 11:51
سائنسی ترقی کے باوجود انسان کو دین کی ضرورت کیوں ہے؟

حوزہ / اگرچہ آج کے دور میں علم نے جینز کے اسرار، کہکشاؤں کی وسعت اور انسانی ذہن کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کر لی ہے، لیکن اس کے باوجود ایک بنیادی سوال اپنی جگہ قائم ہے: آخر اتنی ترقی اور ٹیکنالوجی کے باوجود انسان کا دل کسی ایسی حقیقت کا محتاج کیوں ہے جو علم سے آگے ہو؟

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سائنسی ترقیات کو دیکھ کر بعض اوقات یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب دین کی ضرورت باقی رہ گئی ہے؟ اس کا مختصر اور واضح جواب یہ ہے کہ علم انسان کو سہولتیں اور وسائل فراہم کرتا ہے، لیکن دین زندگی کو سمت، مقصد اور معنی عطا کرتا ہے۔

علم یہ تو بتا سکتا ہے کہ زندگی کو کیسے زیادہ آرام دہ، طویل اور ترقی یافتہ بنایا جائے، مگر یہ سوالات اس کے دائرے سے باہر ہیں کہ زندگی کا اصل مقصد کیا ہے اور انسان حقیقی کمال اور سعادت تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔

اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ کہتے ہیں: ایک زمانے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جیسے جیسے دنیا ترقی کرے گی، دین کی ضرورت ختم ہو جائے گی، لیکن آج یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ سائنسی اور تہذیبی ترقی انسان کی دینی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی۔

قرآن کریم بھی انسان کی فطری دینی ضرورت کو واضح انداز میں بیان کرتا ہے: ﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا﴾ “پس اپنا رخ یکسو ہو کر دینِ حق کی طرف رکھو، یہی اللہ کی وہ فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔” (سورۂ روم: 30)

اہم نکتہ یہ ہے کہ سائنسی ترقی دین کی جگہ نہیں لیتی، بلکہ درحقیقت انسان کو ایمان اور دین کی طرف مزید متوجہ کرتی ہے۔ جتنا زیادہ انسان کائنات کے نظم، فطرت کے پیچیدہ نظام اور حیرت انگیز قوانین کو سمجھتا ہے، اتنا ہی وہ خالقِ کائنات کی عظمت سے آشنا ہوتا جاتا ہے۔

بعض مغربی مفکرین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ مذہبی احساس انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ کوونٹائم مذہبی حس کو “انسان کا چوتھا بُعد” قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دینی احساس انسانی روح کا ایک بنیادی اور فطری عنصر ہے جو لاشعور کی گہرائیوں سے ابھرتا ہے۔

تاریخی تجربات اور دانشوروں کے اقوال سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ محض علم انسان کو اخلاقی اور روحانی بلندی تک نہیں پہنچا سکتا۔ ایک مغربی مفکر کے بقول: “دماغ بہت ترقی کر چکے ہیں، لیکن افسوس کہ دل اب بھی کمزور ہیں؛ دل کو مضبوط صرف ایمان ہی کرتا ہے۔”

ٹیکنالوجی اور تمدن انسان کے ہاتھ میں طاقتور وسائل تو دے دیتے ہیں، مگر خود انسان کی اصلاح نہیں کرتے۔ یہ کام دین انجام دیتا ہے، جو انسان کو اقدار، مقصدِ حیات اور صحیح سمت عطا کرتا ہے۔

مشہور ادیب تولستوی کہتے ہیں: “ایمان وہ سرمایہ ہے جس کے سہارے انسان جیتا ہے۔”

اسی طرح علامہ طباطبائیؒ کا کہنا ہے کہ آج کے انسانوں میں پائی جانے والی اچھائیاں، اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہوں، دینی تعلیمات ہی کا نتیجہ ہیں۔

آخرکار یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علم اور دین ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مکمل کرنے والے ہیں۔ علم انسان کو کائنات کو سمجھنے کا چراغ دیتا ہے اور دین اسے زندگی میں کمال، سکون اور حقیقی سعادت تک پہنچنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ علم عقل کو طاقت دیتا ہے، لیکن دین دل کو روشنی بخشتا ہے، اور دونوں کا امتزاج ہی انسان کو اعلیٰ انسانی و الٰہی مقام تک پہنچاتا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha