تحریر: شاہد عباس ہادی
حوزہ نیوز ایجنسی | بتوں اور انسانوں کا تعلق بہت پرانا ہے۔ مٹی ، پتھر یا لکڑی کے بت بنا کر پوچنے یا عبادت کرنے کا نام بت پرستی نہیں بلکہ حقیقت میں غیرالله کو مقدس بنا کر اسکی پرستش کرنا بت پرستی کہلاتا ہے۔ بت پرستی کی ابتداء افراد و اشیاء کی تقدیس یا انکی ہیبت ، ڈر اور خوف کی وجہ سے ہوئی جیسے سامری نے گوسالے کو ایسی شکل میں مزین کیا کہ انسان نے إله سمجھ کر پوچا شروع کردی اور فرعون و نمرود نے لوگوں کے دلوں میں ایسی ہیبت ڈالی کہ انسان نے معبود سمجھ کر عبادت شروع کردی۔
ماضی میں اگرچہ بت پرستی کے طور طریقے مختلف تھے مگر آج بھی بت تراشنے اور اسکی عبادت کا سلسلہ جاری ہے۔ ماضی میں کچھ بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تو کچھ حاجات و مشکلات حل کرنے کیلئے فریادیں کرتے ، کچھ عزت ، دولت اور ناموس قربان کردیتے تو کچھ انسانی خون اور جان کی قربانی پیش کردیتے مگر آج جدید دور کے جدید بت ہیں جن کی خصوصیات مٹی یا پتھر کے بتوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ ان بتوں کی خصوصیات مٹی یا پتھر کے ڈھیر کی بجائے دولت ، طاقت ، نشے ، عورت اور مادیت جیسی لافانی خصوصیات ہیں۔
ان بتوں میں سے امریکہ اور عرب کا بنایا ہوا ایک بت اسرائیل ہے جس کی ہیبت پورے عالم اسلام پر چھائی ہوئی ہے۔ اس بت کی دولت اور طاقت کا انداز نرالہ ہے۔ یہ بت کہیں دولت سے مالا مال ہوکر دنیا میں اپنا سکہ منواتا ہے تو کہیں طاقت کے نشے میں اپنی ہیبت و خوف کے جوہر دکھاتا ہے۔ کہیں عورت کی نمائش کرتے ہوئے اپنے پجاریوں میں اضافہ کرتا ہے تو کہیں مادیت و نسل پرستی کے سبب مزین ہوتا ہے۔
اسرائیل جیسے عظیم بت کی خصوصیات لکھنے سے قاصر موصوف جب اس بت کے پجاریوں کی طرف نظر دوڑاتا ہے تو حیرت کی کوئی انتہاء نہیں رہتی۔ کافر ، زندیق ، ملحد ، انگریز ، ہندو تو چھوڑیں مسلمان بھی اس بت کے پجاری نظر آتے ہیں۔ وہ بھی حرمت کعبہ کے رکھوالے اور عرب ممالک کے ہمنوا پجاری مسلمان جن کے نزدیک کعبہ کی حرمت کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ ان کی اصل حرمت دولت ، طاقت ، عورت ، مادیت اور عیاشی ہے۔ بقول علامہ اقبال رح :
یہ مال و دولت دنیا ، یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم و گماں لا اله الا الله
انسان جب مال و دولت اور طاقت کے نشے اور ان رشتوں سے آزاد نہیں ہوتا تو وہ بتوں کا پجاری بن جاتا ہے۔ آج سعودی عرب اور عرب ممالک کی حالت یہی ہے۔ بیت الله پر قابض یہ پجاری مسلمان اپنے عظیم بت اسرائیل کی پوجا میں اسطرح غرق ہیں کہ اسلام اور انسانیت کی حرمت کو بھول گئے بلکہ اپنی عیاشیوں کی خاطر خودی کی عزت کو بھی برباد کردیا۔ پھر کبھی یہ عورت کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تو کبھی دولت و طاقت کے نشے میں غرق ہو جاتے ہیں۔ اور تو اور بتوں کے یہ عرب پجاری نہ صرف اسلام کو پیروں تلے روند رہے ہیں بلکہ انسانیت کو بھی پچھاڑ رہے ہیں۔ ہر وہ انسان جو ان پجاری مسلمانوں کے عظیم بت اسرائیل کے خلاف قیام کرتا ہے اسے سرعام دولت ، طاقت ، عورت اور مادیت جیسے ہتھیاروں سے پچھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب ان پجاری مسلمانوں نے مسلم دنیا کو ہدف بنانا شروع کردیا ہے۔ انکے اہداف میں سے جنسی لذت ، موسیقی ، دولت سے مالا مال کرنا ، ماڈرن ازم اور فحاشی جیسی بیماریوں کے ذریعے مسلم دنیا کو اسرائیل پرست بنانا ہے جیساکہ سعودی عرب کے فیشن شو میں آدھے ننگے لباس پہن کر عورتوں اور مردوں نے اسرائیل پرستی کے جلوے دکھائے اور پوجا بندر تعمیر کروا کر اسلامی تاریخ سیاہ کردی۔ افسوس اس بات پر ہے یہ واقعات ایسی جگہ وقوع پذیر ہوئے جو توحید شناسی اور دین کا مرکز تھی۔
عربوں کی جدید بت پرستی میں نہ صرف عام عرب مسلمان پجاری ہیں بلکہ انکے بڑے بڑے سردار اور مولانا حضرات بھی حصہ دار بنے ہوئے ہیں۔ پوجا کے اس کھیل میں مست عربوں کی ناعاقبت اندیشانہ مستی کا مسلم دنیا کے مستقبل پر کیا اثر ہوگا اس کا اندازہ لگانا صاحبان عقل کے لیے مشکل نہیں جس کے اصل ذمہ دار جدید بتوں کے یہ مسلمان پجاری ہونگے جو حقیقی طور پر مسلمان کہلانے کے لائق نہیں۔