۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا حمید الحسن زیدی

حوزہ/ مولانا ڈاکٹر کلب صادق اعلی ٰاللہ مقامہ کی پوری زندگی امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظیم دانشگاہ علم کو آج کی دنیا سے متعارف کرانے میں گزری۔

تحریر: حجۃ الاسلام مولانا سید حمید الحسن زیدی، مدیر الاسوہ فائونڈیشن سیتاپور

حوزہ نیوز ایجنسی |

وسیع وعریض سرزمین

ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے جہاں مختلف قومیں آباد ہیں اور مختلف ادیان و مذاہب پر عمل کیا جاتا ہے ان تمام اقوام اورادیان و مذاہب کے ماننے والوں میں کچھ ان کے مذہبی رہنماہوتے ہیں جن کی مذہبی یا قومی قیادت کا اثر پوری قوم پر دکھائی دیتا ہے اس ملک میں دیگر ادیان و مذاہب کے ماننے والوں میں دین اسلام کے پیروکاروں کثیرتعدادمیں آبادہیں اوران میں بھی خاص طور پر مذہب اہل بیت علیھم السلام کا اتباع کرنے والوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے ۔ 

مذہبی اور سیاسی قیادت کی ہوڑ

اس وسیع و عریض ہندوستان میں مذہبی اور سیاسی قیادت  کی ایک ہوڑ لگی ہے ایک طرف سیاسی افراد اور پارٹیاں قوم کا خون چوس کر اپنی قیادت چمکانے اور اس کے ذریعہ اپنی نسلوں کا پیٹ بھرنے میں مصروف ہیں تو دوسری مختلف ادیان و مذاہب کےخود ساختہ رہنما  اپنے اپنے مذہب کو پروان چڑھانے کےلیے مختلف قسم کی لایعنی جد و جہد کا شکار ہیں انھوں نے اپنے خیال خام میں اپنے اپنے مذہب کو پروان چڑھانے کے لیے مختلف نام نہاد درسگاہیں قائم کر رکھی ہیں جن میں بزعم خود مذہبی رہنما پیدا کر کے سماج کی اس ضرورت کو پورا کیاجاتاہے جبکہ اکثر اوقات انھیں مذہبی رہنمائوں کے درمیان آپسی ٹکراؤ کی وجہ سے قوم صرف انتشار کا شکار ہوتی ہے  جس کی بناپر آگے بڑھنے کے بجائے  تنزلی اور پستی مسلسل اس کا مقدر بنتی جارہی ہے ۔ 

دوسروں کے لیے لقمۂ تر

اس سلسلہ میں دیگر ادیان و مذاہب کے ماننے والوں کا جو نقصان ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ مسلمان  اس کے نقصانات کا شکار ہیں اور مذہبی اداروں کی کثرت کے باوجود آپسی منافرت کی جو کیفیت ان کے درمیان دکھائی دیتی ہے اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ خود غرض افراد اور جماعتیں انھیں اپنی ہوس کے لئے لقمہ تر بنا لیتی ہیں اور مسلمان روز بروز ان کی بد بو دار ہواؤں کےتیز سے تیز تر ہوتے ہوئے تھپیڑوں کی ضد میں مزیدذلت ورسوائی کےتاریک گڑھوں میں گرتاچلاجارہا ہے۔ 

ٹھوس قدم کا نہ اٹھنا

کم از کم عصر حاضر میں مسلمانوں کے کسی بھی فرقہ کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے جو انھیں اس ذلت و رسوائی سے نکال کر عزت و سر بلندی کی راہ پر گامزن کر سکے۔ 

ماضی کے قابل قدر اقدامات

اگرچہ ماضی میں سر سید احمد خان جیسی کچھ شخصیات نے مسلمانوں کی جدید تعلیم کے بند و بست کی طرف توجہ کی تھی جس کے نتیجہ میں علی گڑھ میں ایک عظیم یونیورسٹی قائم ہے اس کے علاوہ دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی دانشگاہیں اور ڈاکٹر ذاکرحسین جیسے کالجز کسی حد تک اس راہ میں اٹھنے والے بڑے قدم ہیں لیکن یہ ماضی کی یاد گاریں بھی اب کما حقہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ہیں جو اس وقت ملک کے کم از کم ۲۰؍ سے ۲۵؍ کروڑ لوگوں کی ضرورت ہے ۔ 

امت اسلامیہ کی تعلیم و ترقی کے لئے اٹھایا جانے والاہر قدم اور اس راہ میں کی جانے والی ہر کوشش قابل قدر ہے لیکن عام طور پر اس طرح کی کوششیں اور تدبیریں اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں اور عصر حاضر میں سوائے فرقہ واریت کی آگ کے کہیں پر کوئی ٹھوس قدم اٹھتا دکھائی نہیں دیتاجو پوری اسلامیہ کےلئےلمحہ فکریہ ہے ۔

مذہب ابل بیت کی انفرادیت

 امت اسلامی میں بھی ایک سب سے اہم طبقہ مکتب اہل بیت علیھم السلام کی پیروی کرنے والوں کا ہے جہاں ماضی سے لے کر آج تک بہت اہم علمی اوردینی خدمات انجام پائیں جنھوں نے وقار تشیع کوبنائے رکھا۔

اس سلسلہ ماضی میں بہت سی  قدیم دینی درسگاہیں قایم ہوئیں جو آج تک اپنی خدمات  کے ذریعہ پہچانی جا رہی ہیں  لیکن جدید تعلیم کے لیے کچھ گنے چنے اقدامات کے علاوہ کوئی ٹھوس بند و بست نظر نہیں آیا اگر چہ علماء قدیم کی کوششوں سے شیعہ کالج جیسی درسگاہ نے کسی حد تک اس ضرورت کی طرف توجہ دی تھی لیکن شاید اس سے وہ مقصد حاصل نہ ہو سکا جو اس کے قائم کرنے والے علماء و مفکرین کے پیش نظر رہا ہوگا اور اس کوشش کے باوجود مذہب اہل بیت علیھم السلام کے ماننے والوں کو جدید علمی دنیا میں وہ مقام نہیں مل سکا جو ان کا حق ہونا چاہیئے تھا۔

عصر جدید کی منفرد شخصیت 

 اس نازک دور میں مذہب اہل بیت کا اتباع کرنے والی جدید تعلیم کی عظمت و اہمیت کو سمجھنے والی علم دین کے زیور سے آراستہ جس شخصیت نے پوری دنیا کو اس قومی ضرورت کی طرف متوجہ کیا وہ ذات حکیم امت عالی جناب مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق صاحب قبلہ کی تھی جو ایک عظیم علمی شیعہ گھرانے کی انتہائی ذہین فعال اور با عظمت شخصیت تھے اور قومی سربراہی کے لئے سر دست مروجہ تمام خصوصیات کے حامل ہونے کے اعتبار سے ان کے لئے سب سے آسان تھا کہ وہ صرف ایک مذہبی رہنما کے طو ر پر لوگوں کے سر کا تاج بنے رہتے لیکن انہوں نے کسی ایک فرقہ کی قیادت اور سربراہی کو منہ نہ لگا تے ہوئے ہندوستان کی پوری قوم کی تعلیم و ترقی کاخواب دیکھااور اس سلسلہ میں کبھی بھی ایک لمحہ کے لئے کسی کوشش سے دریغ نہیں کیا البتہ حکیم امت طاب ثراہ جہاں ایک طرف پوری ہندوستانی قوم کی تعلیم و ترقی کے لئے کوشاں تھے وہیں امت اسلامیہ کے جوانوں اور خاص طور پر مذہب اہل بیت علیھم السلام کے پیروکاروں کو آگے بڑھانے کی انھیں ایک دھن تھی ۔ 

عملی اقدامات

اس سلسلہ میں آپ نے صرف زبانی اعلان اور منصوبہ بندی نہیں فرمائی بلکہ عملی اقدامات کی صورت میں توحید المسلمین ٹرسٹ ، یونٹی پبلک اسکول ، یونٹی ڈگری کالج اور پھر ایرا میڈیکل کالج سے لے کر یونیورسٹی تک کے قیام و انتظام میں بھر پور حصہ لیا اور آخر ی لمحہ تک اپنے اس علمی اور دینی فریضہ کے لئے جد و جہد فرماتے رہے ۔ 

یونٹی کالج میں جہاں سرمایہ داروں کے لئے جدید اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا وہیں اس کی دوسری شفٹ میں غریب کنبوں کے نادار بچوں کو بھی آگے بڑھانے کے لئے ان کی تعلیم کا انتظام کیا اور اطلاع کے مطابق بہت سے نادار جوانوں نے اس اسکول کی تعلیم سے آراستہ ہو کر ترقی کی راہ میں قدم بڑھائے۔

آج حکیم امت ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کےافکار و نظریا ت اور ان کی خدمات کےنتیجہ میں  ایک روشن مستقبل کی امید جاگ رہی ہے حکیم امت نے اپنا سفر حیات مکمل کر لیا لیکن ان کا سفر مقصد ابھی بھی جاری ہے ۔ 

         بدن کی موت سے کردار نہیں مر سکتا 

امید ہے ان کی حیات کی طرح ان کی موت پوری قوم اور ا س کے رہنماؤں کو ان کی عظیم فکر اور ان کی عظیم تحریک تعلیم وتعلم کی طرف متوجہ کرے گی اور پھر ہر سینے میں مولانا کلب صادق طاب ثراہ کا دل دھڑکے گا اور ملک کےگوشہ وکنارمیں ڈاکٹرکلب صادق پیداہوتےرہیں گے ۔ 

گلدستہ صفات

یوں تو ہر شخص کے اندر کچھ نہ کچھ خوبیاں ہوتی ہیں اور وہ اپنی ان خوبیوں کو بروئے کار لاکر کچھ نہ کچھ کارنامے ضرور انجام دیتا ہے لیکن حکیم امت کی ذات بابرکت میں یکجا بہت سی خوبیاں تھیں جنھوں نے انھیں بلند ترین صفات کا ایک گلدستہ بنا دیا تھا اور جن کے بغیر اتنا بڑا کارنامہ کرنا ممکن نہیں تھا ۔ 

وہ عالم ، فاضل ، محقق، دقت نظرکے حامل ' ملنسار ، منکسر المزاج ، حلیم ، صابر ، قناعت پیشہ ، ہنس مکھ ، قوم کا درد رکھنے والی ایک بااخلاق دیندار پرہیزگار شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین خطیب ، تجزیہ کار ، مشاور،  سمجھدار ، حوصلہ افزائی کرنے والے ،ایک قدر دان انسان تھے جنھیں اپنے خاندان' اپنی شخصیت اپنے کارناموں اور اپنے علم و حکمت کا ذرہ برابر احساس غرور نہیں تھا ۔

 وقت کی پابندی ان کا طرۂ امتیاز تھی اس کی سخت بندشوں کے باوجود سب سے ملنا ، سب کی سننا اور اپنے حالات اور شرائط کے مطابق جہاں تک ممکن ہو سب کی مشکلات حل کرنا ان کا ہرلعزیزکارنامہ تھا ۔ 

ہر جگہ اچھی چھاپ

پوری دنیا کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں موصوف نے اپنے بابرکت قدم نہ رکھے ہوں اور جہاں گئے ہوں وہاں اپنے اخلاق و کردار اور اپنے نظم و انتظام کی چھاپ چھوڑ کر نہ آئے ہوں حقیقت یہ ہے کہ ایسی شخصیتیں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں اور ایسی شخصیتوں پر یہ شعر مکمل طور پر صادق آتا ہے ۔ 

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے 

بری مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا 

واقعی کلب صادق

امید ہے اس دیدہ ور کا وجود قوم کی رگوں میں خون بن کر دوڑے گا اور کلب صادق طاب ثراہ کایہ طرز حیات جس میں "علم کی گفتگو تھی ، علم کی گفتگو تھی ، علم کی گفتگو تھی اور بس" گویا مولانا ڈاکٹرکلب صادق اعلی ٰاللہ مقامہ نے اپنے کو واقعی دروازۂ امام جعفر صادق علیہ السلام کا پاسبان ونگہبان بنا کر واقعی کلب صادق کی زندگی بسر کرنےکا عزم کیا تھا اور پھر زندگی کے آخری لمحات تک اسی عزم کے پابند رہےان کی پوری زندگی امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظیم دانشگاہ علم کو آج کی دنیا سے متعارف کرانے میں گزری۔

علوم آل محمد ع سےلگاؤ

موصوف جہاں جدید تعلیم و ترقی کے دلدادہ تھے وہیں علوم آل محمد علیہم السلام کی قدر دانی میں کسی سے پیچھے نہیں تھے بانی تنظیم مولانا غلام عسکری طاب ثراہ کی تحریک دینداری کی حمایت میں حوصلہ افزائی اور قدر دانی جس انداز میں ان کی طرف سےدیکھنے کو ملی ا س کی مثال نہیں ملتی حقیر نےشعور علمی کی ابتدا میں اپنی آنکھوں سے دیکھاجب بانی تنظیم کی وفات کی خبر آئی شہر لکھنؤ کی واحد عظیم علمی شخصیت جو صبح سے دیر رات تدفین تک موجود رہی وہ حکیم امت کی شخصیت ہی تھی خطیب اعظم نمبر میں حکیم امت کا مضمون تحریک دینداری کی قدر دانی کی بہترین مثال ہے۔

آپ اس کے بعد بھی زندگی کے آخری لمحات تک تحریک اور تحریک سے وابستہ ہر شخص کی حوصلہ افزائی فرماتےرہے یہاں تک ان افراد کی پشت پناہی اور حمایت میں بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی جو کسی نہ کسی وجہ  ادارہ سے باہر اسی تحریکی جذبہ کے ساتھ خدمت دین میں سرگرم ہوئے جذبۂ تحریک کی حمایت اور اس کے خدمات کی پشت پناہی (چاہے زبانی ہی کیوں نہ ہو)  ہمت اورحوصلہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی تھی جسکی تفصیلات ذکرکرنے کا موقع نہیں ہے۔

 لکھنؤ کی مساجد میں پہنچ کر طلاب علوم دین کی اقتدا میں نماز ادا کرنا علم و عمل کی ہر تحریک اور پروگرام میں وقت کی تنگی کے باوجود شریک ہونا طلاب و علماء دین کے لئے خاص تعظیم و تکریم کا قائل ہونا وغیرہ وغیرہ جیسے نہ جانے کتنے خصوصیات ہیں جو اس شخصیت کو ہر دلعزیز بناتے تھے ان کی محبتوں اور قدر دانیوں کی بہت سی داستانیں ہیں جو ان شاء اللہ آہستہ آہستہ سامنے آتی رہیں گی ۔ 

خدا وندکریم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ معبود ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اپنے خزانۂ غیب سے اسے جلد از جلد پورا کر دے قوم کے روشن مستقبل کے سلسلہ میں ان کے خواب اور کارناموں کو ان کے بلند درجات کا ذریعہ قرار دے ۔ 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .