۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
تصاویر / دیدار رئیس دانشگاه تهران با آیت الله العظمی سبحانی

حوزہ / حضرت آیت اللہ سبحانی نے تہران یونیورسٹی کے صدر سے ملاقات میں طلباء کے تھیسز اور تحقیقی مقالہ جات کو کارآمد بنانے اور صنعت و معاشرے کے لئے معاون ہونے پر تاکید کی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ جعفر سبحانی نے قم المقدسہ میں تہران یونیورسٹی کے صدر سے ملاقات کے دوران کہا: مشکلات کا حل اور معاشرے کی تعمیر کا انحصار معاشرے میں خصوصاً تعلیم یافتہ طبقے کے ایمان اور اخلاق پر ہے۔

اس مرجع تقلید نے طلباء کی اخلاقی تربیت میں اساتید کے تعمیری کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تعلیمی حکام سے کہا: طلباء کی اخلاقی تربیت میں اساتید کا تعمیری کردار ہوتا ہے لہذا انہیں چاہئے کہ وہ ان کے لئے اساتید کا انتخاب کرتے وقت مکمل دقت اور احتیاط سے کام لیں۔

حضرت آیت الله سبحانی نے یونیورسٹی کی تعلیم میں ایمان اور اخلاق پر توجہ دینے پر تاکید کی اور کہا: اگر معاشرے بالخصوص پڑھے لکھے طبقے میں ایمان اور اخلاق غالب ہو تو اس میں بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا: بدقسمتی سے وہ تمام لوگ جنہیں معاشی بدعنوان قرار دے کر گرفتار کیا گیا ہے وہ سب پڑھے لکھے ہیں اور ان کے پاس یونیورسٹی کی ڈگریاں ہیں لیکن دیکھیں کہ انہوں نے ملک کے لیے کتنے مسائل پیدا کیے ہیں اور اب ان پر سینکڑوں مقدمے چل رہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی اخلاقی یا ایمانی بنیاد نہیں رکھی گئی یا اگر رکھی بھی گئی تو وہ کمزور تھی۔

حضرت آیت الله سبحانی نے یونیورسٹی کے اساتید کے مسائل کا بھی حوالہ دیا اور کہا: ان جوانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اساتید کو قبول کرنے اور منتخب کرنے میں ضروری احتیاط برتی جائے کیونکہ استاد کا اسٹوڈنٹس کی شخصیت کی نشوونما میں تعمیری کردار ہوا کرتا ہے لہذا اساتید کے انتخاب میں علم اور ایمان دونوں عناصر پر غور کیا جانا چاہئے۔

اس مرجع تقلید نے کہا: طلباء کے تھیسز اور تحقیقی مقالہ جات کو کارآمد بنایا جائے اور توجہ رہے کہ اسے صنعت و معاشرے کے لئے معاون ہونا چاہئے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: میں اس بات کو نہیں مانتا کہ ہم اپنے ملک کے دروازے دنیا پر بند کر دیں، ایسا ممکن نہیں ہے۔ آج دنیا کے آخری کونے میں پیدا ہونے والا خیال بھی چند گھنٹوں بعد پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ اس لیے مغربی فلسفہ کو ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ فکری طور پر تیار ہونے کے لیے فلسفۂ اسلامی کو انڈرگریجوئیٹ سطح پر پڑھایا جانا چاہیے اور مغربی فلسفہ کو اعلیٰ سطح کی تعلیم پر پڑھایا جانا چاہیے تاکہ ان میں ضروری تجزیاتی قوت پیدا ہو۔

حضرت آیت اللہ سبحانی نے مختلف افکار کے ٹکراؤ کو علمی ترقی کا سبب قرار دیا اور کہا: اگر ہمارا ذہن اور ہماری فکر ان کے افکار کا مقابلہ کرے تو بہت بہتر ہوگا ۔ فلسفۂ اسلامی کی کرسٹلائزیشن اور قلم پزیری کا عمل اسی نظریات کی کشمکش اور ٹکراؤ کا نتیجہ ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .