۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
نصاب تعلیم

حوزہ/ اگر نصاب میں درود شریف کو تبدیل کر دیا گیا ہو، اہلبیت عليهم السلام کے ذکر کو حذف کر دیا گیا ہو اور ایسے عقائد کو شامل کیا گیا، جن کا پرچار ایک خاص گروہ کرتا ہے تو یقیناً عاقل شخص کے نزدیک ریاست فرقہ واریت پھیلانے میں پیش پیش ہے۔

تحریر: مولانا شاہد عباس ہادی

حوزہ نیوز ایجنسی نصاب تعلیم پر اقوام کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ اس کی تشکیل بڑی ذمہ داری والا کام ہے۔ جو لوگ اس ذمہ داری کی انجام دہی کے وقت غداری کرتے ہیں، وہ ملک و قوم کے غدار ہوتے ہیں۔ یاد رکھیئے بچے ہی ہمارے ملک کا اصلی سرمایہ ہیں۔ ان کی کردار سازی اور شخصی تعمیر کیلئے معیاری تعلیم و تربیت انتہائی ضروری ہے۔ لہذا نصاب تعلیم ایک سنجیدہ اور قابل غور مسئلہ ہے۔ نصاب تعلیم کے ساتھ دوہرا معیار ہرگز نہیں ہونا چاہیئے۔ ایسے دور میں جب شدت پسندی عروج پر ہے اور ہر طرف کافر کافر کے نعروں سے استقبال ہو رہا ہے، ان حالات میں ایسا نصاب مرتب کرنا جو یکطرفہ ہو تو یقیناً ہر عاقل شخص کے نزدیک ایسا لائحہ عمل فرقہ واریت سے قتل و غارت کی طرف لے جانے والا خطرناک سفر کہلائے گا۔ کسی شدت پسند گروہ کے عقائد کو نصاب میں شامل کرنا المیہ ہے۔ ایسا نصاب مرتب کرنا جو کسی خاص گروہ سے میل کھاتا ہو تو یقیناً یہ ناصرف پاکستان سے غداری ہے بلکہ اسلام میں تحریف کرنے کے مترادف ہے۔

اگر نصاب میں درود شریف کو تبدیل کر دیا گیا ہو، اہلبیت عليهم السلام کے ذکر کو حذف کر دیا گیا ہو اور ایسے عقائد کو شامل کیا گیا، جن کا پرچار ایک خاص گروہ کرتا ہے تو یقیناً عاقل شخص کے نزدیک ریاست فرقہ واریت پھیلانے میں پیش پیش ہے، یہاں تک کہ واقعہ کربلا جس سے انسانیت اور حیا و پاکدامنی زندہ ہے، حذف کر دیا گیا، آخر ایسا کیوں؟ کیا یہ لوگ یزیدی حکومت اور یزیدی افکار کا پرچار کرنے جا رہے ہیں؟ کیا یہ لوگ انسانیت کو قتل کرنے جا رہے ہیں؟ کیا یہ لوگ ماں اور بہن کے درمیان امتیاز کو ختم کرنے جا رہے ہیں۔؟ 

واقعہ کربلا نے ہمیں بتایا ہے کہ انسانیت کیا ہوتی ہے، واقعہ کربلا نے ہمیں ماں بہن کے درمیان فرق بتلایا ہے، واقعہ کربلا نے ہمیں انسانی حقوق کا تحفظ کرنا سکھایا ہے، واقعہ کربلا نے ہمیں حیا و پاکدامنی کا درس دیا ہے، اس واقعہ نے اسلامی اقدار کو زندہ رکھا ہے۔ اگر آج کچھ شرپسند طاقتیں اس ذکر کو مٹانا چاہتی ہیں تو یہ طاقتیں واقعہ کربلا کو نہیں بلکہ دین اسلام کو ختم کرنا چاہتی ہیں، حیا و پاکدامنی اور انسانیت کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ اگر ریاست اسی طرح دوہرا معیار اختیار کرے گی، اگر ریاست نصاب تعلیم کے ذریعے لوگوں کے عقائد اور درود شریف کو تبدیل کرنے کی مذموم کوشش کرے گی تو بغاوت کو نہیں روکا جا سکتا۔

اس دوہرے معیار سے فرقہ واریت کی فصل پکتی رہے گی، جس کا پھل فساد اور خون خرابے کی صورت نظر آئے گا۔ جوانوں کو اقبال کا شاہین بنانا ہے تو نصاب تعلیم میں ملا کے بارے میں علامہ اقبال کے نظریات کو شامل کیجیے۔ یکساں نصاب تعلیم، دوہرے معیار، دو زبانوں اور دو چہروں سے مرتب نہیں ہوسکتا۔ اس وقت یکساں نصابِ تعلیم کے کفن سے بوڑھی تکفیریت کی سڑاند اور تعفن ہر صاحبِ شعور کو محسوس ہو رہا ہے۔ لہذا اس تعفن کے خلاف آواز اٹھانا ہر باشعور کی ذمہ داری ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .