حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جامعہ روحانیت بلتستان پاکستان کے تحت ایک فکری نشست کا اہتمام بعنوان “یکساں قومی نصاب پر شیعہ مکتب کے تحفظات” کیا گیا۔ نشست سے تمہیدی گفتگو حجۃ الاسلام شیخ محمد علی شریفی نے کی۔ انہوں نے موضوع کی اہمیت، اس پر بحث کی ضرورت اور اس کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔ بعد ازاں اس موضوع پر پاکستان کے معروف کالم نگار جناب نذر حافی صاحب نے مفصل گفتگو کی۔
انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ایسی نشستیں صاحبان علم و عمل کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مختلف اقوام، مسالک اور زبانوں کے لوگ بستے ہیں، لہذا ایک ہی نصاب تعلیم کی بنیاد پر سب کو یکساں طور پر سیراب کیا جانا چاہیئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یکساں نصاب تعلیم کسی ایک فرقے کا نہیں ہونا چاہیئے بلکہ سارے پاکستانیوں اور سارے مسالک کا ہونا چاہیئے۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ نصاب تعلیم کی کتابوں میں یکسانیت کے ساتھ ساتھ استادوں کی خصوصی تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ صرف کتاب کافی نہیں ہے بلکہ کتاب کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ استاد بھی ضروری ہے۔
نذر حافی کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں ایسے اساتذہ بھرتی کئے جائیں، جن کا تعلق طالبان، داعش اور القاعدہ کو پروان چڑھانے والے دینی مدارس سے نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں استاد کے حلیے سے ہی وحشت و بربریت ٹپک رہی ہو اور اس کی اپنی تربیت شدت پسندوں کی نرسریوں میں کی گئی ہو، وہاں بچوں کے اذہان سے شدت پسندی کو نہیں نکالا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ نصابی کتب میں اہل بیت علیہ السلام کا ذکر ختم کرنا اپنی جگہ قابل تشویش ہے، تاہم نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں شدت پسند عناصر کی بھرپور موجودگی اور زیادہ تشویشناک ہے۔ انہوں نے اپنے تجزیئے میں بیان کیا کہ نصاب تعلیم کے نام پر مسلمات تاریخ اور قطعیات کتاب و سنت میں کمی بیشی کرنا ایک شدت پسندانہ سوچ ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نصابی کتب میں اپنے ذاتی عقائد کیلئے بچوں کے اذہان کو ہموار کرنے کی خاطر حقائق کو مسخ کرنے والے ملک و قوم کے خیرخواہ نہیں ہیں۔ ان کے تجزیئے کے مطابق مسئلہ صرف اسلامیات کا نہیں، بلکہ پورے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں شدت پسند شخصیات، ان کے افکار اور نظریات کی موجودگی کا ہے۔ انہوں نے اس طرف توجہ دلائی کہ ٹیکسٹ بکس کی صورت میں جو کچھ سامنے آیا ہے، وہ اس بات پر دلیل ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم اور نصاب تعلیم کے پالیسی میکرز کے درمیان، ملک دشمن اور فرقہ پرست عناصر بیٹھے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اہلبیت ؑ اور صحابہ کرام ؓ کا ذکر قرآن مجید اور احادیث رسول کی روشنی میں ویسے ہی ہونا چاہیئے، جیسے کتاب و سنت میں ہوا ہے۔ مسلمات تاریخ اور قطعیات کتاب و سنت میں کمی بیشی کا حق کسی کو نہیں پہنچتا۔ ایسا کرنے سے اسلام کا حقیقی چہرہ مخدوش ہوگا اور دین اسلام کی غلط تصویر اجاگر ہوگی، جو کہ بچوں کو مسلمان بنانے کے بجائے ملحد بنانے کا باعث بنے گی۔