۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
شہید ناصر صفوی

حوزہ/ موت سب کو آتی ہے،موت کے سیلاب میں ہر ادنٰی و اعلٰی بہہ جاتا ہے، مرنے والے کی شخصیت جتنی مضبوط ہوتی ہے، اس کی جدائی کا غم بھی اتنے بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے۔

تحریر: نذر حافی

حوزہ نیوز ایجنسی | موت سب کو آتی ہے۔ موت کے سیلاب میں ہر ادنٰی و اعلٰی بہہ جاتا ہے۔ مرنے والے کی شخصیت جتنی مضبوط ہوتی ہے، اس کی جدائی کا غم بھی اتنے بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے۔ کسی کا سوگ چند دنوں اور چند گھروں تک محدود رہتا ہے، جبکہ کسی کی موت پر پورے شہر، صوبے یا ملک میں تعطیل کی جاتی ہے اور کوئی چند سالوں کے بعد عالم بشریت کے حافظے سے محو ہوجاتا ہے، جبکہ کسی کی یاد نسل در نسل منتقل ہی ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس فانی زندگی میں، چھوٹے لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کو دیکھ کر پھولے نہیں سماتے، وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ان کے لئے واہ واہ کریں، ان کی سنیارٹی کا اعتراف کریں، ان کے تجربے کو سراہیں اور ان کے کاموں کے گن گائیں، جبکہ عظیم لوگ اپنے کاموں کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، وہ اپنے عظیم کارناموں کو بھی دیکھ کر مطمئن نہیں ہوتے، ان کے نزدیک کام چھوٹے اور بڑے نہیں ہوتے بلکہ ہر کام رضائے پروردگار کے لئے ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک جو کام خدا کے لئے انجام دیا جائے وہ چھوٹا نہیں ہوسکتا اور جو کام لوگوں میں اپنا مقام بنانے کے لئے کیا جائے وہ بڑا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے لوگ، اس دنیا میں ایک دوسرے پر سبقت لینے، تنقید کرنے اور ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں مصروف نظر آتے ہیں، جبکہ عظیم لوگ خاموشی سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہیں، چپکے سے اپنا کام انجام دیتے ہیں اور خلوت میں اپنے رب کی بارگاہ میں گڑگڑا کر یہ کہتے ہیں کہ ہمارا راستہ کتنا طولانی ہے اور زادِ راہ کتنا کم ہے۔

عظیم لوگوں کی اس روش پر چلنے والی ایک شخصیت کا نام شہید علی ناصر صفوی بھی ہے۔ قبلہ سید امجد کاظمی ایڈووکیٹ کے بقول ناصر صفوی کی عظمت کا ایک راز یہ بھی تھا کہ وہ دنیا کی لذات کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ وہ ایک یتیم کی حیثیت سے اس دنیا میں آئے، ایک بیوہ کی آغوش میں جوان ہوئے اور اس ظالم سماج کے ظلم کی بھینٹ چڑھ گئے۔ وہ واقعتاً اس دنیا کی لذات سے کنارہ کش تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس دنیا میں رہ کر کسی سے واہ واہ نہیں کروائی، خاموشی سے زندہ رہے اور رات کی تاریکی میں اپنے دور کے سب سے بڑے یزید کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ سترہ سال سے، ناصر صفوی کے ورثاء، اس مظلوم کے مقدمے کی پیروی کر رہے ہیں، ان سترہ سالوں میں اس مظلوم کا خون عدالتوں کی فائلوں میں مہک رہا ہے، قاتلوں کی آستینوں پر چمک رہا ہے اور یزیدان عصر کی سازشوں کو بےنقاب کر رہا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے مقدمے کا فیصلہ نہیں سنایا جا رہا۔

ہاں! اس مقدمے کے فیصلے میں اتنی ہی تاخیر ہونی چاہیے تھی، بلکہ اس سے بھی زیادہ تاخیر کی امید رکھنی چاہیے۔۔۔ جی ہاں اس سے بھی زیادہ تاخیر ہونی چاہیے، چونکہ کوئی بھی شخصیت جتنی عظیم ہوتی ہے، اس کا دشمن اتنا ہی پست اور کم ظرف ہوتا ہے۔ ناصر صفوی کے دشمنوں کی پستی کا اندازہ اس سے لگایئے کہ قاتلوں نے ایک بوڑھی ماں اور دو کم سن بچیوں کے سامنے ناصر صفوی اور ان کی بیوی کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قتل کرنے کے بعد اب ان مظلوموں کے مقدمے کے فیصلے میں تاخیر محض تاخیر ہی نہیں بلکہ قاتلوں کی کم ظرفی کی انتہا کا اعلان بھی ہے۔ ویسے بھی ناصر صفوی کے سر کا بدلہ کسی یزید کا سر کہاں ہوسکتا ہے! ہر سال کو ناصر صفوی کا یوم شہادت ہمارے کانوں میں یہ سرگوشی کرکے گزر جاتاہے کہ "عظیم لوگوں کو اس دنیا میں انصاف ملے یا نہ ملے وہ دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔"

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .