تحریر: نذر حافی
حوزہ نیوز ایجنسی ।تربیتِ بشر ایک دینی والٰہی فریضہ ہے۔ اسی فریضے کی انجام دہی کیلئے خدا نے انبیا مبعوث کئے اور کتابیں نازل کیں۔ انسان تخلیقی طور پر خالق ِ کائنات کا ایک شہکار ہے۔ ہماری اس کائنات کے امن، حُسن اور ترقی و کمال کا کوئی بھی خواب اس شہکار کی تعلیم و تربیت کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔ در اصل تربیت انسان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور انہیں نکھارنے کا نام ہے۔اس سلسلے میں سب سے پہلے انسان میں موجود صلاحیتوں کی نشاندہی کی جانی چاہیے۔مسئلہ یہی ہے کہ انسان ان گنت صلاحیتوں سے مرکب اور لامحدود استعداد سے عبارت ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ظہورِ اسلام کے بعد اب قیامت تک انسانی رُشد و کمال اور تربیت کیلئے مزید کوئی وحی نہیں آئے گی، اور نہ ہی کوئی کتاب نازل ہو گی۔ انسانی تربیت کا آخری درجے کا عالمی اور آفاقی دستور دینِ اسلام کہلاتا ہے۔تاجدارِ ختمِ نبوّ ت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے بعد دینِ اسلام نے کئی طرح کا نشیب و فراز دیکھا۔ نشیب و فراز کے ایک طولانی سلسلے کے بعد مختلف جہتوں سے موجودہ صدی کو دینِ اسلام کے عروج اور غلبے کی صدی کہا جا سکتا ہے۔ خصوصا حضرت امام خمینی نے جس طرح سے دینِ اسلام کو ایک جامع نظامِ حیات کے طور پر منوایا ہے اس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ آپ نے استعمار اور طاغوت کے تراشے ہوئے نام نہاد اسلام پر خطِ تنسیخ کھینچ کر حقیقی اسلام کا پرچار کیا۔ آپ نے دینِ اسلام کو دنیا کے سامنے انسانی مسائل کے واحد حل کے طور پر پیش کیا۔آپ نے اسلامی انقلاب برپا کر کے یہ واضح کیا کہ اسلام انسان کے صرف انفرادی و عبادی مسائل ہی حل نہیں کرتا بلکہ انسان کی تمام اجتماعی، سیاسی اور معاشرتی الجھنوں کو بھی بطریقِ احسن سلجھاتا ہے۔
حضرت امام خمینیؓ کی تعلیمات کا انتہائی اچھوتا اور منفرد پہلو یہ ہے کہ آپ نے جہاں دنیا کو حقیقی اسلام یعنی اسلامِ ناب سے آگاہ کیا وہیں پر سب کو حقیقی تشیّع کا بھی تعارف کرایا۔حضرت امام خمینی سے پہلے جس طرح دینِ اسلام کو چند عبادات کا مجموعہ سمجھا جاتا تھا، اُسی طرح مکتبِ تشیع کو بھی فقط نماز روزے اور عزاداری تک محدود خیال کیا جاتا تھا۔ حضرت امام خمینی ؓنے جہاں اسلام کو اُس کی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلائی وہیں مکتبِ تشیّع میں انقلابی روح بھی پھونکی۔ آپ کے اسلامی انقلاب سے پہلے اہلِ تشیع ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کو ہی انتظارِ امام مہدیؑ سمجھتے تھے۔ آپ نے انتظارِ امام کے اس منفی تصوّر کی جگہ مثبت تصوّر پیش کیا۔ آپ نے اہلِ تشیع کو ظہورِ امام تک بیٹھے رہنے کے بجائے ظہور کیلئے مقدمات فراہم کرنے کی دعوت دی۔ سعی و جہاد اور کاوش و کوشش پر مبنی اس دعوتِ انتظار نے اسلام اور تشیع کے اندر پنپنے والے سیکولرازم پر کاری ضرب لگائی۔ آپ نے ایسی دینداری، معنویت اور روحانیت کو رد کر دیا جو دین کو سماج، سیاست اور اجتماع سے الگ کرنے پر مُصر تھی۔آپ کی تعلیمات کے مطابق دین کو عوام کا نِجی معاملہ قرار دینے اور سیاست کو اخلاقیات سے الگ نیز دین کو سیاست سے جدا کرنے والوں کا حقیقی اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔آپ جہاں علمائے کرام کو دینِ اسلام کا محافظ سمجھتے ہیں وہیں منکرات کے مقابلے میں علمائے کرام کے سکوت کو اسلام اور مسلمین کیلئے سخت مہلک گردانتے ہیں۔
چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک عالمِ دین ایک ملت کو نجات بھی دے سکتا ہے اور ہلاک بھی کر سکتا ہے۔ توجہ رکھیں کہ کہیں آپ علمائے کرام ملت کو تباہ کرنے والے لوگوں میں سے نہ ہو جائیں۔ ایک عالمِ دین کو ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ جب اُسے دیکھیں تو انہیں خدا اور رسول یاد آئے۔ (صحیفه امام، ج 8، ص 262)
اسی طرح آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ جولوگ دوسروں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں وہ سب سے پہلے اپنی تربیت کریں . صحیفه امام، ج 14، ص 391.
آپ کے نزدیک تربیت سب سے زیادہ ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اکیلے علم کا کوئی فائدہ نہیں، تربیت کے بغیر علم مضر ہے۔ جیسے کبھی کبھار بارانِ رحمت جب پھولوں پر برستی ہے تو خوشبو سے فضا معطر ہو جاتی ہے ویسے ہی جب کبھی گندگی پر برستی ہے تو ہر طرف سڑاند اور بدبو پھیل جاتی ہے۔ علم بھی اسی طرح ہے۔ جب ایک تربیت شدہ دل میں علم داخل ہوتا ہے تو سارا جہان اس سے معطر ہوجاتا ہے لیکن جب ایک غیر تربیت شدہ دل میں علم داخل ہوتا ہے تو سارے جہان کو خراب کرتا ہے۔ صحیفه امام، ج 14، ص 40.
ملتِ پاکستان کو اسلامِ ناب اور حضرت امام خمینی پر کاربند رکھنا مجلسِ وحدتِ مسلمین کا ایک اہم ہدف ہے۔ اس ہدف کو بطریقِ احسن پورا کرنے کیلئے سال 2014 میں مجلس وحدتِ مسلمین نے علمائے کرام پر مشتمل ایک ذیلی تنظیم بنام مجلسِ علمائے شیعہ پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا۔ حقیقی اسلام کی ترویج و تبلیغ کے ذریعے ایک الہی معاشرے کی تشکیل کیلئے اس ذیلی تنظیم کو اپنی فعالیت کا دائرہ کار، فیصلہ جات کرنے اور حکمتِ عملی طے کرنے کا اختیار بھی دیا گیا۔
اس کے اغراض و مقاصد کا تعین کرتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات کو خاص اہمیت دی گئی:
1۔اسلامی اقدار کی ترویج و تشہیر اور اسلامی ثقافت کا نفاذ۔
2.تشیع کے بنیادی عقائد کی تعلیم اور معاشرے کی آل محمد ؑ کی تعلیمات کے مطابق تربیت۔
3.معاشرے میں موجود انحرافات کی تشخیص اور ان کے ساتھ مقابلے کے لئے حکمت عملی کا تیار کرنا۔
4.اسلامی اقدار کے نفاذ کے لئے دیگر مکاتب فکر کے ساتھ مل کر مسلمانوں میں وحدت و یکجہتی کے لئے جد و جہد کرنا۔
5.مسلمانوں میں مشترکات کی ترویج کے ذریعے مختلف مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے قریب کرنا۔
6.نماز جمعہ و جماعت کا قیام اور قرآنی تعلیمات کا فروغ، مساجد اور مراکز دینیہ کی آبادیکاری کے لئے جد و جہد کرنا۔
7.جوانوں اور نوجوانوں کےلئے تربیتی کیمپوں کا قیام۔
8.تبلیغ دین کے لئے مبلغین کو منظم کرنا اور ان کی تبلیغی صلاتوں کو بہتر بنانےکے لئے پروگرام تشکیل دینا۔
9.تبلیغ دین میں مبلغین اور مدرسین کو درپیش مالی مسائل کے حل کے لئے شعبہ فلاح و بہبود قائم کرنا۔
فیصلہ اگرچہ بہت اہم تھا تاہم مختلف وجوہات کی بناپر اس پر مطلوبہ حد تک عمل نہ ہو سکا۔
جنوری 2022ء میں مجلسِ وحدتِ مسلمین کی شوریٰ عالی نے ایک مرتبہ پھر مجلس علمائے شیعہ پاکستانکو بھرپور انداز میں فعال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ چنانچہ جنوری 2022 سے مجلس علمائے شیعہ پاکستان کو ملک بھر میں فعال کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔انسانوں کی تربیت دینی فریضہ بھی ہے اور حضرت امام خمینی ؓکا راستہ بھی۔اسسےکسی کو اختلاف نہیں کہ انسانی تربیت کا اہم ترین فریضہ علمائے کرام پر ہی عائد ہوتا ہے لہذا ہم امید کرتے ہیں کہ خط امام کے پیروکار علما پر مشتمل مجلس علمائے شیعہ پاکستان کا مذکورہ پلیٹ فارم آگے چل کر ملت پاکستان کی تعلیم و تربیت اور فکری و نظریاتی رُشد و کمال میں بنیادی و اساسی کردار ادا کرے گا۔