۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا غافر رضوی

حوزہ/ انٹر نیشنل نور مائکرو فلم سینٹر (دہلی) نے قدیمی شجروں کی مدد سے جناب ڈاکٹر مہدی خواجہ پیری کی زیر نگرانی چھولس سادات ضلع نوئیڈا صوبہ یوپی کا شجرہ مکمل کردیا ہے۔

کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی

حوزہ نیوز ایجنسی | انٹر نیشنل نور مائکرو فلم سینٹر (دہلی) نے قدیمی شجروں کی مدد سے جناب ڈاکٹر مہدی خواجہ پیری کی زیر نگرانی چھولس سادات ضلع نوئیڈا صوبہ یوپی کا شجرہ مکمل کردیا ہے۔

جغرافیائی اعتبار سے قدیم زمانہ میں چھولس کا ضلع بلندشہر اور تحصیل سکندرآباد تھا اس کے بعد ضلع غازی آباد ہوا تو تحصیل دادری میں شمار ہوا اور حال حاضر میں چھولس کا ضلع گوتم بدھ نگر(نوئیڈا) مگر تحصیل دادری ہی ہے۔ چھولس سادات دہلی سے تقریباً  50/کلومیٹر کے فاصلہ پر شمال کی جانب سادات کی ایک معروف بستی ہے۔

ساداتِ چھولس کے مورث اعلیٰ "میر سید علی سبزواری" ہیں ۔ سیدعلی سبزواری کے یہاں چار بیٹے ہوئے جن کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں: (1)سیداکبر سبزواری(2)سید امجدسبزواری (3)سیدعلی اصغرسبزواری (4)سیدحسن خان سبزواری ۔ چھولس سادات میں ان چاروں بیٹوں کی نسلیں آباد ہیں۔چھولس سادات کا محلہ "عباس نگر" سید علی اصغر سبزواری سے آباد ہوا۔ سید علی اصغر کا مزار چھولس کی شبیہ کربلا میں واقع ہے جو عقیدتمندوں کے قلوب کا محور بنا رہتا ہے۔

چھولس سادات کے مورث اعلیٰ "سید علی سبزواری" کا سلسلۂ نسب امام رضا علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ ان کا سلسلہ دس واسطوں سے حضرت شاہ حسن روشن چراغ اور چودہ وسیلوں سےامام محمد تقی علیہ السلام کے فرزند ارجمند حضرت موسی مبرقع علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ اس اعتبار سے چھولس کے سادات خود کو تقوی بھی لکھ سکتے ہیں لیکن امام محمد تقی علیہ السلام کی خواہش کے پیش نظر رضوی لکھتے ہیں۔

ساداتِ چھولس کا شجرۂ نسب سید جلال بیہقی سے شروع ہوتا ہے۔ سید جلال کے تین بیٹے ہوئے: (1)سید محمود(برقعہ پوش) مدفون میفیرگارڈن حوض خاص مہرولی-دہلی  (2)سید شاہ میر (3)سید محمد۔ سید محمود برقعہ پوش سب سے پہلے ترک وطن کرکے ہندوستان(بنگال) آئے تھے۔ اس وقت سلطان غیاث الدین کی حکومت تھی۔ سیدمحمدکے دو بیٹے تھے: (1)سید علاء الدین (2)سید مسیح۔ سید علاء الدین اپنے چچا (سید محمود برقعہ پوش) کی وفات کے بعد (سنہ 860ہجری میں) اپنے بھائی سید مسیح کے ہمراہ سبزوار سے ہندوستان تشریف لائے۔

سید مسیح تو ہندوستان سےاپنے وطن "سبزوار" واپس چلے گئے لیکن میرسیدعلی سبزواری سنہ 865ہجری/1460ء میں چھولس سادات کی سرزمین پر تشریف لائے جہاں پہلے پٹھان اور راجپوت آباد تھے، چونکہ میر سید علی سبزواری کے چچا "سیدحسن سبزواری" کے ہاتھوں لوہاگڑھ(کلوندا) فتح ہوچکا تھا اسی لئے ان کا رعب و دبدبہ پورے علاقہ میں چھاچکا تھا یہی وجہ تھی کہ جب میرسیدعلی سبزواری نے چھولس سادات کی سرزمین پر نزول اجلال فرمایا تو وہاں پر بسنے والے راجپوت اور پٹھانوں نے آہستہ آہستہ ترک وطن کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ پورے افقِ چھولس پر سادات چھاگئے اور پٹھان ختم ہوگئے۔ چھولس سادات کی جامع مسجد آج بھی پٹھانوں والی مسجد کے نام سے معروف ہے۔ تفصیل کے لئے( گلستان رضویہ"شجرۂ چھولس سادات"، صفحہ15-19)  کی جانب رجوع کیا جاسکتا ہے۔

جاری سال یعنی سنہ 1442ہجری میں چھولس سادات کی آبادی کو تقریباًپانچ سو ستہتر (577) سال ہوگئے ہیں۔چھولس سادات کی کل آبادی تقریباً دس ہزار افراد پر مشتمل ہے جس میں سادات کی اکثریت ہے۔

چھولس سادات کا مذکورہ شجرہ سنہ 1957ء تک محدود تھا، اس کو وسعت دینے کے لئے مولانا سید ذاکر رضا رضوی چھولسی صاحب قبلہ نے قدم اٹھایا، سنہ 2013ء تک کا شجرہ آمادہ کیا اور اس شجرہ کا نام "گلستان رضویہ" رکھا۔ اس شجرہ پر مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی صاحب قبلہ نے نظرثانی کی۔

یہ شجرہ ڈیڑھ فٹ چوڑا اور 120/فٹ لمبا، استاد خطاط شمیم احمد کے قلم سے کپڑے کے اوپر انٹر نیشنل نور مائکروفلم سینٹر (نئی دہلی) میں تحریر کیا گیا ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .