حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سادات امروہہ کی اہم میراث جس کو انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر ایران کلچرہاؤس دہلی میں بہت خوبصورتی کے ساتھ عظیم سرمایہ کاری کرکے محفوظ کیا ہے اس میراث کو نسب نامہ یا شجرہ سادات امروہہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
امروہہ صوبہ اترپردیش کے مغرب میں واقع ہے جس کی کل آبادی: 200000 ہے اورمسلم آبادی 60٪ اسی میں شیعہ آبادی 15٪ پائی جاتی ہے یہاں کے لوگ ہمیشہ دیندار رہے ہیں ان کی دینداری کی علامت 20/مساجد اور 72/ حسینیہ و کربلا ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ تعلیم یافتہ رہے ہیں اور درسگاہوں کو بھی بنایا ہے جن میں 5/ اسکول ان کی علم دوستی کی علامت ہے۔ امروہہ کے نقوی سادات کےمورث اعلیٰ حضرت شرف الدین شاہ ولایت نقوی ہیں جن کا سلسلہ نسب امام علی نقی علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔
شجرہ کی اجمالی وضعیت : یہ شجرہ دو فٹ چوڑا اور 276 فٹ اور 6 انچ (92 گز اور 6 انچ) لمبا ہے، یہ شجرہ باریک جھلّی(پوست) پر مکمل طور پر خوبصورت و دیدہ زیب ہے ڈیزائن سے اول تا آخر مزین ہے اس شجرہ کی ابتداء حضرت آدمؑ اور رسولوں اور مشہور پیغمبروں سے ہوتے ہوئے مشہور صفی بزرگ حضرت سید شاہ شرف الدین واسطی جو شاہ ولایت کے نام سے معروف ہیں آٹھ سو سال پہلے قریہ امروہہ (یو۔پی) میں تشریف لائے اور وہیں کے ہوکر رہ گئےانکی اولادں کا سلسلہ جو آٹھ سو سالوں پر محیط ہے ، اولادوں میں سنی شیعہ دونوں ہیں اس شجرہ میں بلا تفریق ، عابدی، نقوی، تقوی، زیدی، کاظمی ، رضوی ، نقشبندی، اور چشتیہ وغیرہ ہیں۔
سادات امروہہ (دوسرا حصہ) دو فٹ چوڑا اور 436 فٹ 8انچ (145 گز، 8،انچ)لمبا نقاشی وغیرہ سے مزیّن باریک جھلّی(پوست) پر ہے۔ دوسرے حصے میں شاہ ولایت رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد وقاضی سید امیر علی کی اولاد تاج الدین سید شرف الدین جہانگیر قاضی محمود سالار کی اولادوں کا سلسلہ نسب ہے ۔
یہ شجرہ باریک جھلی (پوست) پر ہے جو کہ 148 فٹ دو انچ (تقریباً 49 گز) لمبا ہے اور 18 انچ چوڑا ہے اس شجرہ میں حضرت امام حسینؑ کی اولاد امام زین العابدین ، عبد اللہ الباھر، حضرت امام محمد باقرؑ، علی، عبداللہ، عمر الاشرف، علی الاصغر وغیرہ کا نسب نامہ ہے۔
تجدید شجرہ اور خصوصیت شجرہ: اس شجرہ کو کھال پر" انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر" میں ماہر کاتبین کے توسط سے کئی سالوں میں مکمل کرکے بہت حفاظت سے محفوظ جگہ پر رکھاگیا ہے۔
امروہہ از لحاظ جغرافیائی : شہر امروہہ ہندوستان کی راجدھانی دہلی سے صرف 130 کیلومیٹر پر واقع ہے دہلی سے نزدیک ہونے کی وجہ سے، امروہہ کا موسم دہلی کی طرح ہے۔ یہ شہر علاقوں اور محلوں میں تقسیم کیا گیا ہے امروہہ ایک مسلم اکثریتی آبادی ہے۔ 60 فیصد آبادی مسلمان ہے اور 30 فی صد ہندو ہیں۔
امروہہ کے علمی، فرہنگی اور مذہبی مراکز: بیسویں صدی کی ابتدا میں سادات نے ترقی کی کو شش شروع کی اور چند روشن خیال ہستیوں نے قومی ادارے قائم کیے۔ حاجی سیدمقبول احمد نے بامداد دیگراں خاندان 1902ء میں امام المدارس کی ابتدا کی اس مدرسہ کے لیے حاجی سید مقبول احمد اور سید محمد باقر نے موضع "سربراہ " اور "قائم پور" وقف کیے اور مولوی سید مجتبے ٰ حسن عرف چاند کی کوششوں سے ہائی اسکول ہوا۔ جو اب انٹر میڈیٹ کالج ہے مولاناسید نجم الحسن کی تحریک پر نور المدارس قائم ہوا اور مولوی سید اعجاز حسن جن کو گزیٹر مراد آبا د 1911ء میں قائد سادات امروہہ لکھا گیاہے سید المدارس کے بانی ہوئے۔ ان تمام مدارس سے تعلیم کا بہت چرچاہوا خصوصاً امام المدارس سے انگریزی تعلیمی ترقی میں بہت مدد ملی۔امروہہ میں 72 عزاخانے (چھوٹے - بڑے)پائے جاتے ہیں جن میں دربار شاہ ولایت، عزاخانہ والیہ پچدرہ، مسمات وزیر النساء دانشمندان، عزاخانہ سید داد علی بگلہ، عزاخانہ مسمات میمونہ خاتون مجاپوتہ، عزاخانہ حرمت شاہ مچھرٹہ، عزاخانہ سید دوست علی کٹکوئی، عزاخانہ مسمات نورا گُزری، عزاخانہ حسینیہ لکڑہ، عزاخانہ مسمات چھجی قاضی گلی، عزاخانہ چاند سورج قاضی زادہ، عزاخانہ اکبر علی دانشمند، عزاخانہ حسینی ہال شفا پوتہ، عزاخانہ مظہر علی کٹرہ غلام علی، عزاخانہ شمس علی خان دربار کلاں، عزاخانہ سید محمد فصیح سٹی، عزاخانہ سید الشہداء حقانی، عزاخانہ علمدار علی خان گزری، عزاخانہ مسمات صغرن گزری، عزاخانہ سخی دربار چھیوڑہ، عزاخانہ اظہر علی کالی پگھڑی، عزاخانہ محمد یوسف منڈی چوب ،عزاخانہ مسمات زینب دربار کلاں،عزاخانہ مسمات کنیز فضا دربار کلاں ، عزاخانہ سید ابوالحسن جعفری ،عزاخانہ سید خیر اللہ خان نقشبندی، عزاخانہ اللہ رکھا ،عزاخانہ فہیم النساء و نعیم النساء دانشمندان اورعزاخانہ خادم علی مجاپوتہ وغیرہ سرفہرست ہیں۔
امروہہ میں آباد خاندان: امروہہ میں مختلف خاندان پائے جاتے ہیں جن میں نقوی، عابدی، تقوی اور زیدی کے نام لئے جاسکتے ہیں نیز غیر سادات خاندان بھی یہاں آباد ہیں۔
امروہہ کی شخصیات :امروہہ شہر جسکو علم و ادب کا گہوارہ کہا جاتا ہے اس سرزمین پر ایک سے ایک بڑی شخصیات نے آنکھیں کھولیں ہیں جن میں سے کچھ کے اسماء کچھ اس طرح ہیں : نجم العلماء سید نجم الحسن ،مولانا سید آل محمد، مولانا سید ابرار حسین،مولانا سید ابراہیم علی،مولانا سید ابوالفاروق محمد عسکری،مولانا سید اجمل حسین، مولانا سید احمد حسین،مولانا سید قائم رضا نسیمؔ آپ کو اردو میں جدید مرثیہ کا بانی کہا جاتا ہے موصوف نے 300 کے قریب مرثئے کہے جو لاجواب ہیں ، مولانا محمد عبادت کلیم، مولانا سید محمد مجتہد، علامہ احمد حسین اور مولانا سید یوسف حسین مجتہد وغیرہ۔
امروہہ ضلع امروہہ کی تاریخ پر طائرانہ نظر: پہلے شخص جو سرزمین امروہہ پر وارد ہو ئے وہ سید شاہ نصیر الد ین اور عابد ی خاندان کے مو رث تھے۔ ان کی حیات ہی میں چو دھویں صدی عیسوی اور ساتویں صدی ہجر ی کے آغا ز میں سید حسین شر ف الد ین شا ہ ولا یت مور ث اعلیٰ خاندان نقو ی سرزمین امروہہ پر وارد ہو ئے۔ ان حضر ات کا تعلق اس زمر ہ صوفیا ئے کرام سے تھا جو ممالک اسلامیہ خصو صاًایران پر مسلسل منگولو ں کے حملو ں کی وجہ سے واردہند ستان ہو ئے اور جن کی سعی و کوشش کی بدولت ہند و ستان کی سر زمین پراسلا م پھیلا اور اس طر ح منگولوں کا یہ فتنہ، اسلا م کے لیے مفید ثا بت ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ سید حُسین شر ف الد ین شاہ ولا یت امروہہ کی آمد کے وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی حکو مت کے قیام کو تقر یباًسو سال کا عر صہ گذر چکا تھا اور امروہہ سلطان غیاث الدین بلبلن دہلی کی حکومت میں ولایت یعنی ضلع قرار پایا مگر اس نو اح میں پو را تسلّط حاصل نہ ہو سکا جس کی ایک وجہ تویہ تھی کہ منگولو ں کے مسلسل حملے ہندوستان پر بھی ہو تے رہتے تھے اوردوسری یہ کہ ہندووں کی تگا اور راجپوت قو میں برابر سر کشی اور بغاوت پر آمادہ رہتی تھیں یہ تھے علاقہ روہیلکھنڈ کے حالات جس کو اس وقت کٹھہر کہتے تھے جب سید شر ف الد ین شاہ ولا یت۔ ان کے اعزااور اسلا ف نے امر وہہ کو اپنا مر کز بنا کر تبلیغ اسلام اور استحکام حکو مت کی ذمہ داری سنبھا لی تبلیغ اس و سیع پیما نہ پر کی کہ آ پ شاہ ولا یت کہلائے اور حسب مقا صد العارفین وثمر ات القدوس آ پ کی ولا یت”ازگنگ تاسنگ“تھی۔ یعنی دریائے گنگ سے لے کر ہمالیہ پہاڑ تک جس میں وہ سب علاقہ شامل ہے جس کو روہیلکھنڈ کہتے ہیں۔ شاہ صاحب اور ان کے اسلاف کی تبلیغ کی بدولت اس شہر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ہندوستان کے دیگر علاقوں میں سب سے زیادہ ہے اور امروہہ کے حلقہ میں آج بھی تمام ہندوستان میں سب سے زیادہ مسلم ووٹوں کا تناسب ہے۔ اسی دور میں تبلیغ دین کے ساتھ ہما رے بزر گو ں نے ملک کی خدمت بھی انجام دی۔ انھوں نے اپنی بہادری اور شجا عت سے تما م سر کش گر وہوں کے سر کر کے امن وامان قائم کیا ان اسلامی خد ما ت کی بنا ء پر حسب گزیٹر ضلع مر اد آباد 1911ء شہنشاہ اکبر کے زمانہ سے بہت پہلے سادات امر وہہ کا شمار ہندو ستان کے ممتازتر ین خاندانوں میں تھا اور وہ ایک اعلیٰ شہر ت کے ما لک بن چکے تھے۔ معاشرتی اعتبار سے اس دور میں سادات کی زندگی بہت سادہ تھی اور ان کے مکا نا ت معمولی تھے۔ ان کا سامان خانہ داری چند ضروری اشیائے زندگی پر منحصرتھا۔ ان کا طعام دور مغیلہ کی لذّتوں سے خالی تھا۔ ان کی زبان عر بی اور فا رسی دونوں تھیں۔ ان کا ہر شخص عر بی اور فارسی لکھ پڑ ھ سکتا تھا اور متعد د حضرات عر بی اور فارسی کے جید عالم تھے۔ اسی علم و فضل کی وجہ سے قاضی علی پسربزر گ سید شر ف الدین شا ہ ولایت قاضی مقرر ہو ئے اور یہ عہدہ مو صو ف کی اولاد میں نسلاًبعد نسل تا انتزاع سلطنت اسلا می جا ری رہا۔ سید شر ف الد ین شاہ ولایت کی اور ان کے پسر بزرگ سید امیر علی کی شخصیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ سن 1340 ہجری مطابق1739ء ابن بطوطہ امروہہ میں مہمان ہواجس کا ذکر اس نے انپے سفر نامہ میں ان الفاظ میں کیا ہے : ترجمہ: پھر ہم امروہہ پہنچے یہ ایک خوبصورت چھوٹا قصبہ ہے پس اس کے عمال قاضی امیر علی اور شیخ زاویہ (یعنی شاہ ولایت ) میرے استقبال کو آئے اور ا ن دونوں نے مل کر میری اچھی دعوت کی۔ اس دور میں دین کی ضرورت نے ہمارے اسلاف کو مقامی زبان جاننےکے لیے مجبور کیا اور خاندانی روایت کے مطابق سید شرف الدین جہانگیر شاہ صاحب مقامی استعداد رکھتے تھے۔ اس دور کا ہرسید سپاہی بھی تھا۔ ایک نئے ملک کے اندر جہاں مسلسل بے امنی تھی وہ ایک جنگجو اور بہادرانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ مختصر یہ کہ اس دور کےسادات کی معاشرت عربی زمین پر ایرانی تہذیب سے مرتب ہوئی تھی۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ پالنے والے سادات اور مؤمنین کو اپنےجدحضرت محمد مصفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرما اور سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھ اور کاوش کنندگان کی سعی و تلاش کو قبول فرما آمین۔