۱۷ آبان ۱۴۰۳ |۵ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 7, 2024
السيدة زينب عليها السلام رمز الفخر والكرامة

حوزہ/ پوری کائنات میں اسلام وہ کامل اور مقدس ترین دین ہے جس نے کائنات کی ہدایت اور راہنمایی کے لئے سینکڑوں ایسی ہستیاں پیش کیں جو اخلاق وکردار، گفتار اور رفتار میں مکمل نمونہ تھیں انہی عظیم ہستیوں میں ایک پیامبر گرامی اسلام کے اہل بیت اطہار علیہم السلام ہیں اور اہل بیت اطہارؑ وہ مقدس نفوس ہیں جو فیوضات نبوت سے براہ راست فیض یاب ہوئے اور رہتی دنیا تک نور الہی اور راہ حق کے صحیح ترجمان بن گئے۔

تحریر : محمد جواد حبیب

حوزہ نیوز ایجنسی | پوری کائنات میں اسلام وہ کامل اور مقدس ترین دین ہے جس نے کائنات کی ہدایت اور راہنمایی کے لئے سینکڑوں ایسی ہستیاں پیش کیں جو اخلاق وکردار، گفتار اور رفتار میں مکمل نمونہ تھیں انہی عظیم ہستیوں میں ایک پیامبر گرامی اسلام کے اہل بیت اطہار علیہم السلام ہیں اور اہل بیت اطہارؑ وہ مقدس نفوس ہیں جو فیوضات نبوت سے براہ راست فیض یاب ہو ئے اور رہتی دنیا تک نور الہی اور راہ حق کے صحیح ترجمان بن گئے۔

خانوادہ رسول ہی وہ مبارک خاندان ہے جس کے معزز و مبارک افراد نے بقائے حق اور فنائے باطل کیلئے ایثار و قربانی، صبر و استقامت، جرات و شجاعت اور ہمت و عزیمت کی بے مثا ل و بے نظیر مثالیں قائم کر دیں اور راہ حق پہ بے خوف و خطر چلتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

واقعہ کربلا جہاں فخر بشریت، نواسہ رسول امام حسینؑ کی قربانیوں کا مظہر ہے وہیں دختر بتول سیدہ زینب کے کامل کردار کی عظمتوں کا امین بھی ہے۔ تاریخ میں کوئی عظیم فتح ایسی دکھائی نہیں دیتی جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ خوا تین بھی اپنے پختہ ارادوں، اخلاقی، نظریاتی اور عملی معاونت کے ساتھ شریک کار نہ رہی ہوں۔ اسکی کئی مثالیں اسلام کے دور آغاز سے لے کر واقعہ کربلا تک نظر آتی ہیں۔ ایثار، قربانی، صدق، وفا، صبر، استقامت، جرات اور شجاعت کا سفر جو سیدہ خدیجۃ الکبری سے شروع ہوا میدان کربلا میں وہ سیدہ زینب کی صورت میں درجہ کمال پر دکھائی دیتا ہے۔اس لئے علامہ اقبال فرماتے ہیں :

حدیث عشق دو باب است،کربلا و دمشق

یکی حسینؑ رقم کرد و دیگری زینبؑ[]

علامہ اقبال کے شعر کا ماحصل یہ ہے کہ کربلا کو امام حسین ؑ نے فتح کیا اور کوفہ اور شام کو حضرت زینب ؑ نے فتح کیا ہے اس لئے جب بھی حضرت زینب کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہےکہ حضرت زینب ؑایک فرد نہیں بلکہ اپنے مقدس وجود میں ایک عظیم کائنات سمیٹے ہوئے ہیں ایک ایسی عظیم کائنات جس میں عقل و شعور کی شمعیں اپنی مقدس کرنوں سے کاشانہ انسانیت کے در و بام کو روشن کئے ہوئے ہیں، اور جس کے مینار عظمت پر کردار سازی کا ایسا پرچم لہراتا ہوا نظر آتا ہے کہ بی بی زینب ؑکے مقدس وجود میں دنیائے بشریت کی وہ تمام عظمتیں اور پاکیزہ رفعتیں سمٹ کر ایک مشعل راہ بن جاتیں ہیں ۔

عورتوں کی فطری ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور بنی نوع آدم کو حقیقت کی پاکیزہ راہ دکھانے میں جہاں مریم و آسیہ و ہاجرہ و خدیجہ اور طیب و طاہر صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا (س) کی عظیم شخصیت اپنے مقدس کردار کی روشنی میں ہمیشہ جبین تاریخ کی زینت بن کر نمونہ عمل ہیں وہاں جناب زینب ؑ بھی اپنے عظیم باپ کی زینت بن کر انقلاب کربلا کا پرچم اٹھائے ہوئے آواز حق و باطل، سچ اور جھوٹ ،ایمان و کفر اور عدل و ظلم کے درمیان حد فاصل کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔

حضرت زینبؑ کی ولادت :

حضرت زینب امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کی صاحبزادی ہیں۔[] بعض منابع کے مطابق حضرت زینبؑ 5 جمادی‌ الاول 5[] یا 6ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئیں۔[ [اور اتوار کی رات 15 رجب سنہ 63 ہجری کو اپنے شریک حیات عبداللہ بن جعفر کے ہمراہ سفر شام کے دوران وفات پائی اور وہیں دفن ہوئیں اور بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپ مدینہ یا مصر میں دفن ہیں۔[]

آپ کے القاب :

حضرت زینبؑ کے دسیوں القاب ہیں من جملہ بعض مشہور القاب یہ ہیں:

عقیلۂ بنی ہاشم، عالمۃ غَیرُ مُعَلَّمَہ، عارفہ، موثّقہ، فاضلہ، كاملہ، عابدہ آل علی، معصومۂ صغری، امینۃ اللہ، نائبۃ الزہرا، نائبۃ الحسین، عقیلۃ النساء، شریكۃ الشہداء، بلیغہ، فصیحہ اور شریكۃ الحسین۔[ [

تحریک زینبیؑ:

امام حسین ؑنے اسلام کے تحفظ کیلئے مدینہ سے ہجرت کی اور پھر حج کو عمرہ سے تبدیل کردیا اورپرخطر راستوں کو طے کرتے ہوئے کربلا وارد ہوئے۔ روزعاشورہ اپنے 72جانثاروں کے ساتھ دین و شریعت کی پاسداری ، حرمتِ انسانی کی پاسبانی اور دین الہٰی کی ترجمانی کیلئے وہ عظیم قربانی پیش کرتے ہیں جسے فدیناہ بذبح عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔عاشورہ کربلا کے بعد تحریک زینبی ؑکا آغاز ہوتا ہے۔اب حضرت زینب ؑ اس کاروان کی سید و سردار ہیں جس کے سید و سردار مدینہ سے کربلا تک امام حسین ؑتھے۔ امام حسین ؑکے کاروان میں اکبر و عباس ،عون و محمد و قاسم اور حبیب ابن مظاہر زہیر ابن قین جیسے جانثار تھے لیکن زینبیؑ کارواں میں بیمار بھتیجا حضرت سید سجاد ؑبے یار و مددگار خواتین اور کم سن بچے تھے۔

نقیبِ فتحِ شہ مشرقین بن کے اُٹھی

نہ تھے حسین ؑتو زینب حسین ؑبن کے اُٹھی

1۱ محرم61ہجری کو یزیدی لشکراس کاروان کو اسیر کرکے کوفہ و شام کی جانب چلا ۔سیدہ زینب ؓنے اس دوران شہیدانِ راہِ شرف و فضل کے پسماندگان و اسیروں کی گراں قدر میراث کی جس طرح پاسداری و حفاظت کی اور شہدائے نینوا کے گراں بہا خون کو رائیگاں ہونے سے بچایا اس پر کوفہ و شام کے بازاروں اور ابن زیاد و یزید کے درباروں میں بنتِ حیدرکرارؑکے خطبات ،بیانات و تقریرات شاہد وگواہ ہیں جنہوں نے یزیدیت اور اس کے ہمنوائوں کے چہروں پر پڑے ہوئے اسلام کے مصنوعی نقاب کو اتار پھینکا اور قصر ہائے امویت و یزیدیت کی چولیں ہلا کررکھ دیں۔ اس بارے میں شاعر کہتا ہے ۔

باطل کو اپنے خطبوں سے برباد کردیا / اسلام غمزدہ تھا اسے شاد کردیا

عباس ؑکی بہن کا یہ اعجاز دیکھئے / خود قید ہو کے دین کو آزاد کردیا

یہ وہی سیدہ زینب ؑ ہے جو اپنے امام ؑ کے حکم سے اولاد فاطمہ ؑکے قافلہ کی سرپرستی کرتی ہیں ، بڑی مصیبتیں اٹھانے کے بعد امام حسین (ع) اور ان کے فداکار اصحاب کے خونی پیغام کو لوگوں تک پہنچاتی ہیں ۔

زینب حسینیت کی بقا کا پیام ہے/ زینب کلامِ عکسِ امام الکلام ہے

زینب یزیدیت سے عداوت کا نام ہے / زینب دراصل فاتحِ دربارِ شام ہے

لہجے میں مرتضیٰ کے وہ جب بولنے لگی / بنیادِ ظلم وجورو جفا ڈولنے لگی[]

حضرت زینب ؑکے خطبہ کے چند اقتباسات :

دربار یزید

یزید نے ایک با شکوہ مجلس ترتیب دیا جس میں اشراف اور سیاسی و عسکری حکام شریک تھے۔[] اس مجلس میں یزید نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی۔[]

سیدہ زينبؑ نے حمد و ثنائے الہی اور رسول و آل رسول پر درود وسلام کے بعد فرمایا:

اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا.

اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کردیئے ہیں؛ اور آل رسولؐ کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہوچکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان ومنزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کررہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خودنمایی کررہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منارہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: " کہ "وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ".

ترجمہ: اور یہ کافر ایسا نہ سمجھیں کہ ہم جو ان کی رسی دراز رکھتے ہیں یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے ہم تو صرف اس لیے انکی رسی دراز رکھتے [اور انہیں ڈھیل دیتے] ہیں.[].

اس کے بعد فرمایا : اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے کیا یہ انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو پردے میں بٹھا رکھا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے. تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی. تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر شہر پھرائے . تیرے حکم پر دشمنان خدا اہل بیت رسولؐ کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے. اور لوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے لوگ سب ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں. ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں. آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے. آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں. آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے.

اس شخص سے بھلائی کی کیا امید ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں حمزہ بن عبدالمطلبؑ کا جگر چبایا ہو. اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو. وہ شخص کس طرح ہم اہل بیتؑ پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے.

اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ "آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں!

اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علیؑ کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے!

اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہوگا اور تو فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھےگا جبکہ تو نے اپنے ظلم و ستم کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندان کے ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں پر لگے زخموں کو گہرا کردیا ہے اور دین کی جڑیں کاٹنے کے لئے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے! تو نے اولاد رسول کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے ہیں.

تو نے خاندان عبد المطلب کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں.

آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے. تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نه کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا.

اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا! تب انہیں معلوم ہو گا کہ کون زیادہ برا ہے مکان کے اعتبار سے اور زیادہ کمزور ہے لاؤ لشکر کے لحاظ سے؟! اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے . اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا. اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے. تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا. نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟

اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا . اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا . خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں . بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں . "اور انہیں جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں، ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ، اپنے پروردگار کے یہاں رزق پاتے ہیں".

اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے . اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے . پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعہ تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا . اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے .

عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا . ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ "کیا برا بدل (انجام) ہے یہ ظالموں کے لیے" ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں[]

حضرت زینب ؑکے خطبات نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدل ڈالااور ظلم وبربریت کی بنیادیں ہلنے لگیں فتح سے مخمور حکمران شرمندگی اور شکست کا نمونہ بن گئے،حضرت زینب ؑکے خطبات نے نہ صرف ظالمانہ یزیدی حکومت کو بیخ وبن سے اکھاڑ کرپھینک دیا اور ظلم و جبر کے مقابل صبر و استقامت و جرات کا استعارہ بن گئیں۔

زینب ؑنے قصر ظلم و یزیدی کو ڈھا دیا

صدیوں میں جو بنا اسے لمحوں میں ڈھا دیا

تبصرہ ارسال

You are replying to: .