شاعر: امید اعظمی مُمبئی
یوں لے کے چلی زہراء جائی ظالم سے بغاوت آنکھو میں
ہونٹھوں پہ علی کا لہجہ ہے عباس کی ہیبت آنکھوں میں
ہلکا سا اشارہ کردے اگر دھنس جاے زمیں میں تخت ستم
ہاں! فاتح خیبر کی بیٹی رکھتی ہے یہ قوت آنکھوں میں
ہم بھی تو اسی آقا زادی کے نقش قدم پر چلتے ہیں
مظلوم سے الفت دل میں ہے اور ظلم سے نفرت آنکھوں میں
عباس کی خواہر دیکھے جدھر دل پھٹ جاے سر کٹ جاے
بس صبر اسی کو کہتے ہیں سوئی ہے قیامت آنکھوں میں
زینب کا قصیدہ لکھتا ہوں عباس کی خوشبو آتی ہے
کاغذ پہ علم لہراتا ہے بس جاتی ہے عصمت آنکھوں میں
کیوں منہ سے کہوں کیوں لب کھولوں وہ واقف حال زمانہ ہیں
ہے مجھکو خبر بنت حیدر پڑھ لیتی ہیں حاجت آنکھوں میں
مردوں کو جلانے والے کی بیٹی کا یہ روضہ ہے آجا
اک آن میں سب جی اٹھینگی جو دفن ہیں حسرت آنکھوں میں
زینب نے رکھی بنیاد عزا آپ اسکو عبث کہتےہیں جناب
گر جاے نہ عزت آنکھوں سے اب تک ہے جو عزت آنکھوں میں
نایاب گہر رکھنے رکھنے والے کیوں اور کسی در پر جائیں
آللہ نے بخشی ہے ہمکو کونین کی دولت آنکھوں میں
اوصاف علی کی بیٹی کے قرآن کے سوروں میں دیکھوں
اے میرے خدا کر مجھکو عطا کچھ ایسی بصیرت آنکھوں میں
امید تصور لایا ہے دربار میں زینب کے مجھکو
خوابوں سے کہو آنا نہ ابھی ان محو زیارت آنکھوں میں