۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
بالصور/ مراسم الاحتفاء بذكرى استشهاد اللواء قاسم سليماني وأبومهدي المهندس بقم المقدسة

حوزه/ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا لیکن ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت میں اسرائيل کا ہاتھ بھی ہے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی | قران پاک شھید کو زندہ کہتا ھے جبکہ شھید کو انسانیت کی محفل کی شمع سے بھی  تعبیر کیا گیا۔شھید جنرل حاج قاسم سلیمانی اور شھید ابو مھدی مھندس کا شمار ان عظیم شھدا میں ہوتا ھے جنہوں نے استقامت اور مقاومت کے بلاک کے لئیے ایک نقشہ راہ متعین کردیا ھے۔ان شہدا کا خون مقاومت کی رگوں میں دوڑ کر اس بلاک کو سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار بنا دے گا۔
شھید قاسم سلیمانی کی شھادت اور امریکہ کے اس دھشت گردانہ اقدام کا جس زاوئیے سے بھی جائزہ لیا جائے امریکی حکام اس قتل کے زمہ دار نظر آتے ہیں۔
سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی عراقی حکام کی سرکاری دعوت پر اس ملک گئے تھے انہیں تین جنوری 2020 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید کر دیا گيا۔ اس حملے میں ان کے ساتھ عراق کی عوام رضاکار فورس الحشد العشبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس اور آٹھ دوسرے افراد بھی شہید ہوگئے۔  ٹرمپ نے ایران کے ایک اعلی فوجی عہدیدار کی ٹارگٹ کلنگ پر مبنی اپنے حکم کو جائز قرار دینے کے لئے بعض جھوٹوں کا سہارا لیا اور عراق کے اقتدار اعلی کے منافی اس دہشت گردانہ اقدام کو خطے میں جنگ کی روک تھام قرار دیا۔ حالانکہ امریکی حکام اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی نے خطے میں دہشت گردوں کے مقابلے میں بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ 
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے دو دن بعد سی این این کی ویب سائٹ نے لکھا تھا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے اعلی حکام وائٹ ہاؤس کے اس دعوے کے دفاع کی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی کو امریکی مفادات کے لئے فوری خطرہ ہونے کی وجہ سے شہید کیا گيا ہے۔ لیکن قرائن کے فقدان کی بنا پر اس حملے کے صحیح ہونے کو  امریکی کانگریس اور رائے عامہ شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔  
جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر منتج ہونے والے امریکہ کے دہشت گردانہ اقدام سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ  امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ خود دہشت گردی کو پروان چڑھاتا ہے اور خطے میں بدامنی اور برائی کا اصلی سبب ہے۔ 
جنرل قاسم سلیمانی نے ایک ملٹری اسٹریٹیجسٹ (Military strategist) کے طور پر خطے میں دہشت گردی کے مقابلے پر مبنی امریکہ کا دعوی غلط ثابت کر دیا۔ اور اس کی پالیسی کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا۔ جنرل قاسم سلیمانی نے داعش کو شکست دی اور شام اور عراق میں ایک مشیر کا کردار ادا کرتے ہوئے خطے میں استقامت کا راستہ ہموار کیا۔ امریکہ اور اسرائيل نے مغربی ایشیا کے خطے کو تقسیم کرنے اور اس خطے پر تکفیری دہشت گردوں اور داعش کے تسلط کا جو منصوبہ بنا رکھا تھا جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی گائيڈ لائنز کے ذریعے اسے ناکام بنا دیا۔ 
اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا لیکن ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت میں اسرائيل کا ہاتھ بھی ہے۔ قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے قبل صیہونی حکومت نے ایسے اقدامات کا آغاز کر دیا تھا جن کے ذریعے ایک تو ایران کو خطے کے لئے خطرہ ظاہر کیا گيا اور  پھر اس خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے لگا۔ اور اس سلسلے میں عراق اور شام میں سپاہ قدس کے کردار کو خاص طور پر نشانہ بنایا گيا۔ اسرائيلی وزیر جنگ نفتالی بینیٹ (Naftali Bennett) نے بارہا، بقول ان کے خطے میں ایران کی موجودگی کے خاتمے کا بہت مناسب موقع آنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے،  دھمکی آمیز بیانات دیئے۔ نیتن یاہو نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے تین دن قبل امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ کیا تھا۔ اسرائيلی وزیر خارجہ نے ایران کے خلاف اہم اقدامات انجام دینے پر مائیک پومپیو کا شکریہ ادا کیا۔ اور مائیک پومپیو نے بھی ایرانی خطرے کے مقابلے میں ٹھوس اقدامات کی خبر دی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے بیانات میں اعتراف کیا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو صیہونی حکومت کی خاطر ان تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گيا ہے جنہیں امریکہ دہشت گرد سمجھتا ہے۔ یروشلم پوسٹ کے مطابق پومپیو نے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے اجلاس میں کہا تھا کہ سپاہ پاسداران کو اسرائيل کی خاطر دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گيا ہے۔ 
بہرحال اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ امریکہ یا اسرائيل میں سے کس نے ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس کو شہید کیا ہے کیونکہ واشنگٹن اور تل ابیب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ 
یہ دہشت گردانہ اقدام ایسی حالت میں امریکہ اور اسرائيل نے اپنے ایجنڈے میں قرار دیا کہ جب مفلوج کر دینے والی پابندیوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ دباؤ پر مبنی ٹرمپ کی اسٹریٹیجی کو ایران ناکام بنا چکا تھا۔ آج بھی عالمی سامراج ایرانی سائنسدانوں کو علم و ترقی کے میدان سے خارج کرنے اور دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے کے ذریعے ایران کے ساتھ اپنی دشمنی نکالنے اور اپنی ناکامیوں کا بدلہ لینے کے درپے ہے۔ البتہ ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر اور عراق کی الحشد الشعبی کے نائب کمانڈر کے جنازوں میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ سے نفرت کا دائرہ ایران کی سرحدوں سے گزر کر عراق، افغاستان ، یمن اور دوسری بہت سی اقوام تک  پھیل چکا ہے۔ اور اس غصے اور نفرت کو ٹویٹ اور دھمکیوں کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔  جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے خلاف ظاہر کیا جانے والا علاقائی اور عالمی رد عمل بھی امریکہ کے لئے ایک بہت بڑی مشکل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کیونکہ اس سے ایران اور عراق کی اقوام کے ساتھ ساتھ ان تمام لوگوں کو ٹھیس پہنچی جو امریکہ کے مظالم کا شکار رہے ہیں۔ 
آخر میں اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ شھید کو قلب تاریخ کہا جاتا ھے حاج قاسم سلیمانی اور شھید ابو مھدی مھندس مقاومت کی تاریخ کے جسد میں قلب کی حیٹیت اختیار کرچکے ہیں اور ان دونوں کا خون مقاومت کی رگوں  میں خون بن کر دوڑتا رہے گا اس تحریک کو کبھی سرد اور سست نہیں ہونے دے گا۔انشاءاللہ 
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کانَ زَهُوقا۔ (الاسراء: ۸۱)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .