از قلم: ابو ثائر مجلسی، قم المقدس
حوزہ نیوز ایجنسی | انسانی تاریخ پرایک نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ دو قوتیں ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل برسرپیکار رہی ہیں ان دوقوتوں کو ہم حق اور باطل سے تعبیر کرتے ہیں،تمام انبیاء اولیاء اور آئمہ اطھار علیهم السلام کی قربانیاں کلمہ حق کے احیا کے لیے تھیں لیکن اس کے مقابل باطل قوتوں نے ہر دور میں حق کو اور راہیان حق کو ان کے راہ سے ہٹانے اور مٹانے کی ناکام کوشش کی ہے لیکن وہ کبھی بھی اپنے اس مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔
تاریخ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ باطل قوتوں نے ہر دور میں بشریت کو راہ حق سے دور رکھنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں۔ یہاں تک کہ جب باطل قوتوں کو اپنے مقاصد میں کامیابی نہیں ملتی تو ان کا آخری حربہ یہ ہوتا ہے کہ اولیاء الھی کو راہ حق سے ہٹانے کے لیے انہیں شھید کردیتے ہیں۔اور اگر آج کی اصطلاح میں بات کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ باطل قوتوں نے ہمیشہ دہشتگردی کے ذریعے راہ حق کو روکنے کی کوشش کی ہے۔تاریخ اسلام گواہ ہے کہ رسول خدا (ص) کی رحلت کے بعد نام نھاد مسلمانوں نے دھشتگردی کا آغاز رسول للہ کے گھر سے ہی کی اور یہ سلسلہ آج تک چلتا آرہا ہے ۔لیکن اس کے مقابل اولیاء الھی نے ہر دور میں خون کے آخری قطرے تک راہ حق کا دفاع کیا ہے اور راہ حق کے استحقاق کا ایک اہم ترین عنصر ولایت ہے ولایت اولیاء اللہ ،وہ ولایت جو نماز روزہ حج و زکواۃ سے بھی زیادہ اہم ہے۔ ولایت دین الھی کا وہ اہم ترین رکن ہے جس کے دفاع کے لیے صدیقہ کبری فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا نے سب سے بڑی قربانی دی۔ رسول خدا کی بیٹی نے ولایت کے دفاع کو اس قدر ضروری سمجھا نہ صرف اپنی قربانی دی بلکہ اپنا سب کچھ قربان کردیا گھر کو آگ لگادی گئی لیکن ولایت کے دفاع سے پیچھے نہ ہٹیں۔ حضرت محسن کو شھید کردیا گیا لیکن ولایت کے دفاع سے پیچھے نہ ہٹیں،ہہاں تک کہ آپ خود فرماتی ہیں:
صُبَّتْ عَلَیَّ مَصَائِبُ لَوْ أَنَّهَا صُبَّتْ عَلَى الْأَیَّامِ صِرْنَ لَیَالِیَا
مجھ پر اس قدر مصیبتیں ڈائی گئی کہ اگر وہ روشن دنوں پر پڑتی تو وہ سیاہ راتوں میں تبدیل ہوجاتیں لیکن فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ایک لمحہ کے لیے بھی ولایت کے دفاع سے پیچھے نہ ہٹیں۔
ایام فاطمیہ کو جو شھادت صدیقہ کبری کے ایام ہیں ان ایام کو اگر ایام دفاع ولایت سے تعبیر کریں اور ان ایام میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا یہ اسوہ یعنی دفاع ولایت کو اگر ہم اجاگر کریں تو ہم بھی اپنے آپ زہرائے مرضیہ کے اس عظیم انقلاب سے نزدیک کرسکتے ہیں اور یہ وہ اسوہ ہے جو بی بی دو عالم کو ہم سے مطلوب ہے ۔ اور یہ وہ سیرت اور اسوہ ہے جس ک تقاضہ آج ہمارے زمانے کا امام ہم سے کر رہا ہے. ہمارے زمانے کا امام (عج) صدیقہ کبری کی سیرت کو اپنے لیے نمونہ عمل بناتے ہیں اور اس بارے میں فرماتے ہیں: "في ابنة رسول اللّه صلى اللّه عليه و آله و سلم لي اسوة حسنة" میرے لیے رسول اللہ کی بیٹی کی زندگی نمونہ عمل ہے۔
پس جو سيرت ہمارے زمانے کے امام کے لیے اسوہ ہو کیا ہمارے لیے اسوہ نہیں ہونا چاہیے؟
اگر ہم فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کا بغور مطالعہ کریں تو بی بی دو عالم اپنے چاہنے والوں کو سیرت اور گفتار دونوں کے ذریعے سے اس اہم ترین عمل کی طرف دعوت دے رہی ہیں یعنی ہر دور میں ہمیں ولایت سے متمسک رہنا اور ولایت کا دفاع کرتے رہنا ہے، ولایت کے دفاع کے لیے اگر جان کی قربانی در کار ہو تو جان دے دی جائے مال کی قربانی درکار ہو تو مال کی قربانی دی جائے اولاد کی قربانی درکار ہو تو اولاد کی قربانی دی جائے۔ اگر ہم صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا کے گفتار کی طرف نگاہ کریں تو اپنے خطبے میں ولایت و امامت کی اہمیت کو یوں بیان فرما رہی ہیں :
«إِنَّ إِمَامَتَنَا نِظَاماً لِلْمِلَّةِ وَ وِلایَتَنا أَمَاناً لِلْفُرْقَة»
کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہماری امامت شریعت اور معاشرے کے لیے نظام ہے اور ہماری ولایت ہی تفرقہ سے بچاتی ہے۔
اس الھی ولایت کے تحقق کے حوالے سے اگر ہم سیرت زہرا سلام الله عليها کی طرف نگاه کریں تو تین اہم ترین عنصر ہمیں دیکھنے کو ملتا جسے ہمیں بی بی نے پہچنوانے کی کوشش کی تا کہ ہم بھی اپنی زندگی میں اس الھی ولایت کو أحياء کرسکیں وہ تین اہم عناصر یہ ہیں :
1.امام شناسی
2.دشمن شناسی
3.زمان شناسی
سیرت فاطمی کے یہ تین عناصر آج انقلاب اسلامی کہ جو انقلاب فاطمی کا تسلسل ہے کے اہم ترین اھداف میں سے ہیں اور انقلاب اسلامی نے یہ موقع ہمارے لیے فراہم کیا ہے آج ہم اپنے زمانے کے حقیقی امام کی شناخت حاصل کریں زمانے کے فتنوں کو پہچانیں اور دشمن کی شناخت رکھیں. جب تک ہم این تین عناصر کی شناخت حاصل نہ کرلیں الھی ولایت کو اپنے معاشرے میں نافذ نہیں کرسکتے۔
امام خمینی (رہ) کا عظیم انقلاب اور آج رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ کی تمام تر قربانیاں اس الھی ولایت کے دفاع اور نفاذ کے لیے ہے۔ انقلاب اسلامی اور حزب اللہ لبنان کی تمام تر قربانیاں، اس الھی ولایت کے نفاذ کے لیے جس کے لیے شھید قاسم سلیمانی جیسے عظیم مجاھدین اسلام کا خون بھی بہہ چکا ہے در حقیقت یہ تمام کاوشیں انقلاب فاطمی سلام اللہ علیھا کا تسلسل ہے جس کی بنیاد بی بی نے اپنے دور میں اپنی قربانی اور شہادت کے ذریعے رکھا۔
لھذا یہ ایام حزن و غم فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی مصیبت پر گریہ و عزادای سے خود کو ولایت کے دفاع کے لیے تیار کرنے کے ایام ہیں تا کہ ہم بھی خود کو انقلاب فاطمی سلام اللہ سے منسلک کرسکیں۔