۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
حجۃالاسلام محسن عباس جعفری

حوزہ/ حضرت زہرا (س) نے شیعہ کو انحلال سے فطام دیا یعنی شیعہ کو دیگر متعدد نظریات کے مخلوط ہونے سے محفوظ کردیا شیعہ کو تشخص دیا ھوویت دی شناخت دی پہچان دی اور اسے نابودی سے بچا لیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قم المقدسہ/ گروہ مطالعاتی آثار شہید مطہری رہ و تحریک بیداری امت مصطفی (ص) شعبہ قم كی جانب سے مركز تحقیقات اسلامی بعثت میں خمسہ مجالس ایام فاطمیہ کی مناسبت سے پہلی مجلس عزا " فاطمہ باعث فطام تشیع از انحلال" کے عنوان سے منعقد ہوئی۔ جس سے حجۃالاسلام و المسلمین آقای محسن عباس جعفری نے خطاب كیا اور مذکورہ موضوع کے مختلف پہلو بیان كئے۔

مجلس كے خطیب نے اپنے خطاب میں كہا كہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: انما سمیت فاطمہ لانہ فطمت ھی و شیعتھا و محبیھا و ذریتھا من النار انسانوں کے نظریات و عقائد بھی مختلف آفات کی زد میں آجاتے ہیں جیسا کہ انسان کا جسم ہے کبھی کبھار بیماریوں سے دو چار ہو جاتا ہے "اعوجاع" انسانی جسم کی ایک ایسی بیماری ہے آنکھوں کو متاثر کرتی ہے جس کی وجہ سے انسان آنکھوں میں ٹیڑھا پن آجاتا ہے پھر انسان چیزوں کو جیسے ہیں ویسے نہیں دیکھ سکتا یعنی چیزوں و واقعیت کو ٹیڑھا دیکھتا ہے۔

اسی طرح نظریات و عقائد جب مریض ہو جائیں تو انسان فہم و ادراک "اعوجاج" کا شکار ہو جاتا ہے حقائق ، واقعیات اور خیالات اور موھومات میں گم ہو جاتا ہے تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے حق و حقیقت کی شناخت سے عاجز ہو جاتا ہے جسمانی ٹیڑھا پن بہت کم ہوتا ہے لیکن نظریاتی اعوجاج بہت زیادہ ہے اس کا ایک اثر انحلال ہے استحالہ ہے یعنی غلط صحیح نظریات ایک دوسرے میں مخلوط ہو جاتے ہیں اہداف معین نہیں ہوتے راستے کھو بیٹھتے ہیں ۔۔۔۔

ایسے انحلالی افکار جب کسی امت میں آ جائیں کسی مذہب میں آ جائیں تو وہ اپنی ھوویت اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت مسلمہ پر یہ وقت آ گیا تھا کہ قریب تھا کہ اپنی ھوویت کھو بیٹھتے اور یہ بات شیعہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام مسلمان اس مشکل کا شکار ہو گئے تھے۔

اس کی ایک دلیل ہے مسلمان تیس سال بعد کے دوران کو خلافت راشدہ سے تعبیر نہیں کرتے۔ جناب سیدہ صلوات اللہ علیہا کا احسان تمام مسلمانوں پر ہے دوسرے بعد میں متوجہ ہوئے جناب سیدہ نے پہلے ہی اس کی نشاندہی کر دی تھی کہ یہ راہ درست نہیں ہے اصل راہ ، راہ امامت و ولایت ہے
جناب سیدہ کا اقدام باعث بنا تشیع بالخصوص اور دیگر مسلمین بھی انحلال سے محفوظ رہیں اگر یہ اقدام نہ ہو اسلام کی تفسیر ملکوکیت کرتی۔

لیکن کوئی کیسے چھپائے گا کہ رسول اللہ کی اکلوتی بیٹی نے ملکویت کے بے نقاب ہونے سے پہلے اس راہ کا انکار کر دیا تھا جس راہ سے ملوکیت وارد ہوسکے جہاں شجرہ خبیثہ کے لئے نرم گوشہ ہو "بضعۃ الرسول" کا کسی کو تائید نہ کرنا کم بات نہیں ہے۔

جناب سیدہ نے اپنے معروف خطبے میں بیان فرمایا کہ "طاعتنا نظاما للملۃ" ہماری اطاعت امت مسلمہ کا نظام ہے و سسٹم ہے ہماری اطاعت سے اسلام کا اصیل ہدف حاصل ہو سکتا ہے درست ہے "اسلام محمدی الحدوث اور حسینی البقاء" ہے کہنے والوں نے اس وجہ سے یہ جملہ کہا ہے کیونکہ واقعہ کربلا تاریخ میں بہت نمایاں ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ "اسلام محمدی الحدوث اور فاطمی البقاء" ہے۔

کیونکہ امام حسین علیہ السلام اگر یزیدیت کے خلاف اٹھتے ہیں تو کسی نے تعلیم دیا ہے اور بقول امام حسین علیہ السلام کہ میں نے ذلت قبول نہیں کی اور شمیشروں کا راستہ اس لئے چنا ہے کیونکہ مجھے خدا نے یہی بتایا ہے رسول اللہ ص نے یہی تعلیم دی ہے اور اس گود نے یہی سکھایا ہے جس میں نے پرورش پائی ہے۔ اَلا اِنَّ الدَّعِیَّ بنَ الدَّعِیَّ قَدْ رکَزَ بَیْنَ اثنَتَینِ بَیْنَ السِّلَةِ و الذِّلَّةِ وَ هَیهاتَ مِنّا الذِّلَّةُ یأبَی اللّهُ لنا ذلک و رسولُهُ و المؤمنونَ و حجورٌ طابتْ و طَهُرَتْ کربلا کی سند، حضرت زہرا ہیں لہذا "اسلام فاطمی البقاء" ہے۔

جیسا کہ جب مذاہب کی تقسیم کی تو ہمیں جعفری کہا کیونکہ یہ تقسیم فقہ کے اعتبار سے تھی۔ جب مسلمانوں میں فقہی رجحان زیادہ بڑھ چکے تھے ہر کوئی فقہی مسائل بیان کرتا ہمارے آئمہ اطہار ع نے بھی بیان کیئے ہم نے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کی پیروی کی تو ہمیں جعفری کہا گیا یہ فقہی تقسیم ہے لیکن اگر نظریاتی اور عقیدتی طور پر تقسیم کریں تو حق یہ ہے کہ ہم سقیفائی نہیں بلکہ فاطمی ہیں مکتب فاطمی ہے۔ کیونکہ تشیع کا اصلی نظریہ جس کی وجہ سے شیعہ دیگر مسلمانوں جیسا نہیں ہے وہ نظریہ امامت و ولایت علی بن ابی طالب علیہما السلام ہے اور رسول اللہ (ص) کے بعد اس نظریے کی سب سے پہلی مدافع حضرت زہرا ہیں لہذا ہم فاطمی ہیں ایک سے زیادہ روایات ہیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ فاطمہ کو فاطمہ کیوں کہتے ہیں ؟ فطمت ھی و شیعتھا و محبیھا و ذریتھا من النار. فطم، فطام اور فطیم کا مطلب جدا ہونا ہے مستقل ہونا وہ بچہ جو ماں کے دودھ سے بے نیاز ہو جائے کھانا کھانے لگ جائے اس کو فطیم کہتے ہیں یعنی بچہ مستقل ہو گیا ماں کے دودھ کا محتاج نہیں حضرت زہرا نے شیعہ کو انحلال سے فطام دیا یعنی شیعہ کو محفوظ کر دیا مستقل کر دیا دیگر متعدد نظریات میں مکس نہیں ہونے دیا شیعہ کو تشخص دیا ھوویت دی شناخت دی پہچان دی نابودی سے بچا لیا. فاطمہ آخرت میں اپنے شیعوں چاہنے والوں اپنی اولاد کو نجات دیں گی درحقیقت اس وجہ سے ہے کیونکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے دنیا میں اپنے شیعوں چاہنے والوں اور اپنی اولاد کو اس راستے پر چلایا ہے جس کا انجام سعادت اخروی ہے دنیا میں اس راہ ولایت پر چلے ہیں تو آخرت میں جہنم سے بچے ہیں اور جس شخصیت نے دنیا میں راہ امامت و ولایت پر چل کر دوسروں کو بھی چلنا سکھایا ہے وہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ہیں جو اس راہ ولایت راہ امامت کو دنیاوی زندگی میں اختیار کرئے انتخاب کرئے یہ شیعہ ہے شیعہ فرقہ نہیں گروہ نہیں بلکہ عنوان ہے لقب ہے ان مطیع لوگوں کو اسلام کی کلاس میں اپنے اساتید یعنی اہلبیت علیہم السلام کے کی من و عن اطاعت کرتے ہیں۔

تشیع اس نسل کا عنوان ہے جو نسل ہو بہو اہلبیت علیہم السلام کے پیچھے اور ان کے ساتھ حرکت میں ہو ورنہ شیعیت نسلوں میں نہیں چلتی خاندانوں کی میراث نہیں بلکہ افراد کی خصوصیت ہے لہذا بعض شیعوں کی اولادیں آتیں اور کہتے کہ ہم آپ کے شیعہ ہیں لیکن امام فرماتے نہیں آپ ہمارے شیعہ نہیں ہیں اور وہ جن کو ہم دیکھیں تو نجانے کیا کہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں "اللھم لقنی اخوانی" خدایا میرے بھائی مجھے ملا یعنی یہی شیعہ ہیں تشیع حقیقتاً فاطمی ہے کیونکہ تشیع کا رکن رکین ولایت ہے جو کہ عقائد میں اصلی اور اساسی ترین مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہم دیگر مسلمانوں سے ممتاز ہیں وہ فقط ولایت ہے دیگر اختلافی مسائل فقہی اور فرعی ہیں اصولی اور اساسی مسئلہ ولایت آئمہ طاہرین علیہم السلام ہے اور اس ولایت کی علمی تعلیم حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے دی ہے اور یہی تشیع کا فطام ہے یہی وجہ ہے کہ تشیع دیگر مکاتب میں مخلوط نہیں بلکہ اپنے تشخص کے ساتھ متشخص ہے اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے علاؤہ کوئی فرد بھی امت اسلامیہ میں شائستہ نہیں تھا جو امامت و ولایت کو بیان کرئے حضرت علی علیہ السلام تو والی ولایت ہے وہ تو اصلی مدعی تھے انصار و مہاجرین کچھ بیعت کر چکے تھے اور کچھ کو گرفتار کیا جا چکا تھا لہذا امت کی شناختی شدہ ترین شخصیت رسول اللہ کے قریب ترین شخصیت اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے میدان میں آئی تاکہ امت پر حجت تمام ہو جائے اور قیامت تک خواص کو معلوم ہو کہ حساس حالات خواص کا ساکت رہنا اور دوپہلو باتیں کرنا قابل قبول نہیں ہوتا خواص کو دیکھ کر امتیں اپنی راہ کا تعین کرتی ہیں خواص اپنے کردار کے ذریعے سے اپنے پیروکاروں کو انحلال کی دلدل سے نکال کر راہ روشن کی ہدایت کرتے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .