۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا منظور نقوی

حوزہ/ جنتی بن جانا حقیقتا اتنا آسان نہیں جتنا آسان جھنمی بننے میں ہے اس لیے کہ جنت کو حاصل کرنے کے لیے قربانیوں کی ضرورت ہے مگر جہنم کے لیے فقط دنیا پرستی، مال پرستی ،منسب پرستی وغیرہ... ہی کافی ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا سيد منظور علی نقوی آمروہہ وی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جنتی بن جانا حقیقتا اتنا آسان نہیں جتنا آسان جھنمی بننے میں ہے اس لیے کہ جنت کو حاصل کرنے کے لیے قربانیوں کی ضرورت ہے مگر جھنم کے لیے فقط دنیا پرستی، مال پرستی ،منسب پرستی وغیرہ... ہی کافی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خداوند متعال قرآن مجید میں سورہ توبہ کی آیت ٨٨ میں ارشاد فرماتا ہے کہ جنت میں وہ داخل ہوگا جو خدا کی راہ میں مال و جان قربان کرتے ہیں. خداوند متعال کی راہ میں جھاد کرتے ہیں اور شھادت دیتے ہیں. ایسے ہی روایات میں صفات اھل جنت کو بیان کیا ہے. جنتی وہ ہے جو صاحب تقوئ ہو، جھاد و شھادت کا جذبہ رکھتا ہو، ھوا پرستی کو ترک کرتا ہو، صبر و تحمل کا حامل ہو، مطیع خداوند و اھل بیت علیهم السلام ہو، عمل صالح انجام دیتا ہو. ان صفات کا ایک ساتھ اپنے وجود میں باقی رکھنا اور خواہشات نفسانی کو قربان کرنے سے انسان جنت میں وارد ہونے کے لائق بنتا ہے۔

مزید کہا کہ اب اگر جھنم کی طرف نگاہ کریں اور انکی صفات کی طرف نگاہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کتنا آسان ہے جھنمی بننا کہ انسان کو گناہ زینت بن کر نظر آنے لگتے ہیں اسی کو نفس مسولہ کہا جاتا ہے اور اس کو پتا ہی نہیں چلتا کہ کب وہ جھنمی ہو گیا. اب اگر قرآن مجید میں دیکھیں کیا صفت بیان کی ہے. یَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ - سوره روم آيه۷ سب سے پہلی صفت جو بیان ہوتی ہے غفلت کا ہونا یعنی فقط سب کچھ دنیا کو سمجھا بیٹھا ہے آخرت سے غافل ہے۔ یہی غفلت گناہوں کو خوبصورت شکل میں دیکھا کر دوزخ کے دروازے کھول دیتی ہے.. اسی طرح کفر بھی ہے اور کفر کی بھی کئی قسمیں ہیں منکر ہونا، حلال کا حرام میں اور حرام کا حلال میں تبدیل کرنا یہ بھی کفر کی علامت ہے اور تکبر کا ہونا کہ جس نے شیطان کو کافرین میں شمار کر دیا گیا إِلاَّ إِبْلِیسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَوَكَانَ مِنَ الْكَافِرِین۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس کا مظاہرہ تاریخ میں بھی دیکھ سکتے ہیں کے کتنے ہیں جنہوں نے مال اور دنیا کے حصول کے لیے جھنم کو اپنے نام کر لیا حق کی صف سے باطل کی صفوں میں جاکر کھڑے ہو گئے اب چاہے جنگ صفین ہو یا کربلا ہو نظر آجائے گا کہ حق کا شور مچانے والے باطل کی صف میں شامل ہو گئے اور حق کے خلاف ہو گئے. طلحه و زبیر جیسے بہت سے مل جائیں گے جو منسب و مال کے لیے حق کی صفوں میں شامل ہوئے جب یہ میسر نہیں ہوا تو باطل سے جا ملے اسی طرح کربلا میں کئی چہرے ایسے تھے جو حق کے ھمراہ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے مگر امام حسین علیہ السلام کی آشنایی ہونے کے باوجود مال و منسب کہ لیے رسول کا کلمہ پڑھنے والے سبطہ رسول کو شھید کر گئے عمر بن سعد و شمر ملعون یہ ایسے لوگ نہیں تھے جو امام کو دیکھے ہوئے نہیں تھے سب معلوم تھا بس مال و منسب کی لالچ نے اندھا کردیا اور شکم میں پہنچے حرام لقمہ حق کے مقابل لے آئے. ایسے نامعلوم کتنے واقعات ہیں تاریخ میں مگر جو حقیقت ہے وہ یہی ہے جو روایت میں آیا ہے کہ انسان کا آخر دیکھ کر اس کی آخرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

آخر میں کہا کہ زمانہ حال میں بھی ہمارے سامنے اب تو بہت سے واقعات نظر آنے لگے کہ بڑے فخر کے ساتھ باطل سے جاکر مل رہے ہیں اور کنڈیشن یہ آگئی ہے کہ ولدیت بھی بدل جانے میں بھی فخر کرتے ہیں. جھنم میں جانے کے لیے خود ہی خواہشمند ہو گئے اور وسیم سے جیتیندر تیاگی کا سفر طے کر لیتا ہے. اور نہ معلوم کتنے ایسے ہونگے جو ادھر جانا چاہتے ہیں مگر دل وہیں چلے گئے ہیں مگر بدن لیکر بدن لیکر جانے میں خوف ہے ایسے لوگوں کا مسلمان رہنا اور نہ رہنا برابر ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .