۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا سلیم

حوزہ/ اثیم راوت اپنے ظاہری ماں باپ کے بھی عاق کا شکار ہوا ہے اور باطنی باپ کے عاق کا بھی شکار ہوا ہے۔ لہذا اب اسے حق نہیں ہے کہ وہ اس زمین پر رہے۔ اسی لیے اس نے اپنی سزا خود ہی طئے کر لی ہے کہ اسے معلوم ہو گیا ہے کہ ظاہری ماں کا عاق اسے جنّت جانے سے روکے گا اور باطنی و حقیقی باپ کا عاق اسے اس زمین پر رہنے کی اجازت نہیں دے گا اسی لئے اس نے کہا کہ مجھے جلا دینا؛ کیونکہ مرنے کے بعد اثیم راوت کے جسم کو زمین قبول نہیں کرے گی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حوزۂ علمیہ قم میں تحقیق و تصنیف و تالیف میں مصروف سرزمین بنگال سے تعلق رکھنے والے محقق و مفکر حجۃ الاسلام عالی جناب مولانا سلیم علی نے حالیہ واقعات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے گستاح پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدید مذمت کی اور اسے کج فکری اور مال و دولت کی چمک میں گرفتار ہوتے ہوئے ایمان بیچ ڈالنے سے تعبیر کیا اور کہا کہ اصلی ہندو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احترام کرتے ہیں اور بہت ہی عقیدت و احترام سے آپؐ کا نام لیتے ہیں اس کے برعکس وسیم مرتد نے ایسے ہندوؤں کی آغوش میں پناہ لی ہے جو دو نمبری ہندو ہیں اصلی ہندومت اور سَنَاتَن دھرم سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

مولانا موصوف نے مجلس ترحیم کے لیے منعقد مجلس کو بہترین انداز سے خطاب کرتے ہوئے آیت کریمہ وَ قَضى‏ رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً. سوره اسراء، آیت ۲۳؛حکم حتمی و واقعی یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو، کی تلاوت کرتے ہوئے کہا، یہ جملہ، پہلے والے جملہ پر عطف ہوا ہے؛ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ جس طرح سے اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت جائز نہیں ہے اسی طرح سے والدین کو اذیت و تکلیف پہونچانا بھی جائز نہیں ہے، اور یہ اللہ کا حتمی حکم ہےجو کبھی نہیں بدلے گا۔ اور فعلِ احسان، بدی اور آزار و اذیت کے مقابلے میں ہے۔ (وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً) اس جملہ کو مسئلہ توحید کے فوراً بعد لانے کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح سے اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک کرنا سب سے بڑا گناہ ہے اسی طرح اگر والدین عاق کر دیں تو یہ بھی سب سے بڑا گناہ ہے مسئلہ توحید کے بعد۔ اس سے بدبخت انسان اور کوئی نہیں ہے جس کے والدین اپنے بیٹے کو عاق کردیں۔

اگر والدین میں سے کوئی ایک بھی عاق کردے تو یہ حالت ہے کہ اس کی موت سخت ہوتی ہے اور مرنے کے بعد زمین نصیب نہیں ہوتی ہے، اگر والدین عاق کردیں تو بوئے جنّت ہزار سال راہ دور سے بھی نہیں لے سکتا۔ ایسا انسان دنیوی مال سے بھی کنگال ہو جائے گا، بیمار ہو جائے گا جس کا کوئی علاج نہیں ہوگا و۔۔۔ اور اگر دونوں والد ناراض ہو جائیں اور عاق کر دیں تو۔۔۔ دو گز زمین بھی نصیب نہیں ہوگا۔

معنای (اثیم راوت) اثیم یعنی:تبهکار، خاطی، خطاکار، عاصی، عصیانگر، گناہگار، مجرم، مذنب، مقصر، اور راوت کے معنی جرأت، بهادر کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ شخص گنہگار اور ایسا گنہگار کہ گناہوں کو جرأت کے ساتھ انجام دیتا ہے؛ یعنی اللہ کے مقابلہ میں کھڑے ہوکریہ کہنا چاہتا ہے کہ میں بدکاری کروں گا جو کرنا ہے کرلے(معاذاللہ)
اس نے اپنا نام خود ہی رکھا ہے اپنے افعال کے متعلق؛ یعنی جیسا فعل ویسا نام بہت اچھا ہے کیونکہ جو شخص گناہ کرتے کرتے اس حد تک پہونچ جاتا ہے کہ اس کے سامنے حکم خداوند بھی کچھ نہیں معلوم ہوتا ہے اور خداوند عالم کے مقابلے میں کھڑا ہو جاتا ہے۔

وسیم بدبخت انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ میں نے جتنی بھی خطائیں کیں ہیں اگر ہندوں کا سپورٹ مل جائے تو مجھے کوئی کچھ نہیں کرسکتا ہے، یہ اتنا بیوقوف ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں کہ خود جو اصلی ہندو حضرات ہیں وہ بھی حضرت محمد (ص) کا عزت کے ساتھ نام لیتے ہیں اور حضرت محمد (ص) کو اللہ کا آخری پیغمبر مانتے ہیں اور آپؐ کے نواسے کو بھی مانتے ہیں۔ اسی لئے شاعر اہل بیت مولانا شفیع حیدر بھیک پوری صاحب فرماتے ہیں:

مل گیا ہے اہل شر سے یوں وسیم جس طرح مجنوں کی لیلی ہو گئی
ایک بدبودار کتا گر پڑا رام تیری گنگا میلی ہو گئی

لہذا اللہ نے بھی وعدہ کیا ہے کہ اس شخص کا قرآن کی آیاتوں کا انکار کرنا، پھر اس کی طرف سے آنے والے آخری پیغمبر (ص) کا انکار کرنا اور انہیں گالیاں دینا، کیا حضرت محمد (ص) سے کوئی ذاتی دشمنی تھوڑی ہے جو حضرت محمد (ص) کو گالیاں دے رہا ہے؟ نہیں کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے، تو پھر کیوں گالی دے رہا ہے؟ وہ اس لیے چوں کہ حضرت محمد (ص) اللہ کا پیغام انسانوں تک پہونچ رہا ہے اس وجہ سے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسکی دشمنی حضرت محمد (ص) سے نہیں ہے بلکہ اللہ سے ہے، اصل دشمنی حضرت محمد (ص) سے نہیں بلکہ اصل توحید سے ہے۔

مولانا موصوف نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا،صفین سے واپسی پرحضرت علی علیہ السلام کے خطبہ کا ایک حصہ جس میں بعثت پیغمبر(ص) کے وقت لوگوں کے حالات' آل رسول (ص) کے اوصاف اور دوسرے افراد کے کیفیات کاذکر کیا گیا ہے۔میں پروردگار کی حمد کرتا ہوں اس کی نعمتوں کی تکمیل کے لئے اور اس کی عزت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے۔ میں اس کی نا فرمانی سے تحفظ چاہتا ہوں اور اس سے مدد مانگتا ہوں کہ میں اسی کی کفایت و کفالت کا محتاج ہوں۔وہ جسے ہدایت دیدے وہ گمراہ نہیں ہو سکتا ہے اور جس کا وہ دشمن ہو جائے اسے کہیں پناہ نہیں مل سکتی ہے۔جس کے لئے وہ کافی ہو جائے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔اس حمد کا پلہ ہر باوزن شے سے گراں تر ہے اور یہ سرمایہ ہرخزانہ سے زیادہ قیمتی ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور یہ وہ گواہی ہے جس کے اخلاص کا امتحان ہو چکا ہے اور جس کا نچوڑ عقیدہ کا جزء بن چکا ہے۔میں اس گواہی سے تا حیات وابستہ رہوں گا اور اسی کو روز قیامت کے ہولناک مراحل کے لئے ذخیرہ بنائوں گا۔یہی ایمان کی مستحکم بنیاد ہے اوریہی نیکیوں کا آغاز ہے اور اسی میں رحمان کی مرضی اور شیطان کی تباہی کا راز مضمر ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد(ص) اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔ انہیں پروردگار نے مشہور دین' ماثور نشانی' روشن کتاب' ضیاء پاش نور' چمکدار روشنی اور واضح امر کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ شبہات زائل ہو جائیں اور دلائل کے ذریعہ حجت تمام کی جاسکے' آیات کے ذریعہ ہو شیار بنایا جا سکے اورمثالوں کے ذریعہ ڈرایا جا سکے۔

یہ بعثت اس وقت ہوئی ہے جب لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمان دین ٹوٹ چکی تھی۔یقین کے ستون ہل گئے تھے۔اصول میں شدید اختلاف تھا اور امور میں سخت انتشار۔مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہوگئے تھے۔ہدایت گمنام تھی اور گمراہی برسر عام۔،رحمان کی معصیت ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت' ایمان یکسر نظر انداز ہوگیا تھا' اس کے ستون گر گئے تھے اورآثار ناقابل شناخت ہوگئے تھے' راستے مٹ گئے تھے اور شاہراہیں بے نشان ہوگئی تھیں۔لوگ شیطان کی اطاعت میں اس کے راستہ پر چل رہے تھے۔ یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوں نے انہیں پیروں تلے روند دیا تھا اور سموں سے کچل دیا تھا اور خود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے تھے۔یہ لوگ فتنوں میں حیران و سر گرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے۔ پروردگار نے انہیں اس گھر ( مکہ) میں بھیجا جو بہترین مکان تھا لیکن بدترین ہمسائے۔جن کی نیند بیداری تھی اور جن کا سرمہ آنسو۔ وہ سر زمین جہاں عالم کو لگام لگی ہوئی تھی اور جاہل محترم تھا.
عاق والدین

مولانا نے اپنے بیان کے آخری حصے میں کہا،اگر والدین کسی بچہ کو عاق کر دیں تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا، نہ وہ جنّت میں جائے گا نہ اسکی موت آسان ہوگی۔ (اثیم راوت) کو بھی تو اسکی والدہ نے عاق کر دیا ہے اسکے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے، اس کا مطلب اثیم راوت دو بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہے: ایک ظاہری ماں باپ کا عاق اور دوسرے باطنی باپ کا عاق جو اصل بھی ہیں اور وہ حضرت محمدؐ و علیؑ ہیں، جیسے کہ حدیث میں آیا ہے کہ: فرمایا: انا و على أبوا هذه الامة کیونکہ حقیقی پدر وہی ہیں تمام چیزیں انہیں کی طفیل میں بخشی گئی ہیں جیسا کہ آپ حدیث کساء میں پڑھتے ہیں کہ: ما خلقت سماء مبنيّة و لا ارضا مدحيّة و لا شمسا مضيئة و لا قمرا منيرا و لا فلكا يدور و لا بحرا يجرى الا لهؤلاء الخمسة.

اور اثیم راوت اپنے ظاہری ماں باپ کے بھی عاق کا شکار ہوا ہے اور باطنی باپ کے عاق کا بھی شکار ہوا ہے۔ لہذا اب اسے حق نہیں ہے کہ وہ اس زمین پر رہے۔ اسی لیے اس نے اپنی سزا خود ہی طئے کر لی ہے کہ اسے معلوم ہو گیا ہے کہ ظاہری ماں کا عاق اسے جنّت جانے سے روکے گا اور باطنی و حقیقی باپ کا عاق اسے اس زمین پر رہنے کی اجازت نہیں دے گا اسی لئے تو اس نے کہا کہ مجھے جلا دینا؛ کیونکہ مرنے کے بعد اثیم راوت کے جسم کو زمین قبول نہیں کرے گی۔" وَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِآياتِنا أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَحِيمِ"،اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیات کی تکذیب کی وہ سب کے سب جہّنمی ہیں۔(سورة المائدة: ۱۰/۵)۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .