۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مولانا عقیل الغروی

حوزہ/ عزا داری سوگواری ہے مگر عزاداری دشمن کے آگےسَر خم کرنا نہیں ہے۔ عزا داری کی روح (بے دینی سے) جہاد ہے، عزاداری کی روح باطل سے جنگ ہے۔ صرف یہ دُہراتے رہنے سے کام نہیں چلے گا کہ کربلا کی جنگ حق و باطل کی جنگ تھی۔ اگر کربلا کی جنگ حق و باطل کی جنگ تھی تو مجلسِ عزا کا تبرک کھانے والو !تم نیوٹرل (غیر جانبدار) کیوں ہو ؟‘‘ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممبئی/ جۃ الاسلام و المسلمین سید عقیل الغروی نے مرکزی عشرہ محرم الحرام مسجد ایرانیان (مغل مسجد) میں مجلس کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’عزا داری سوگواری ہے مگر عزاداری دشمن کے آگےسَر خم کرنا نہیں ہے۔ عزا داری کی روح (بے دینی سے) جہاد ہے، عزاداری کی روح باطل سے جنگ ہے۔ صرف یہ دُہراتے رہنے سے کام نہیں چلے گا کہ کربلا کی جنگ حق و باطل کی جنگ تھی۔ اگر کربلا کی جنگ حق و باطل کی جنگ تھی تو مجلسِ عزا کا تبرک کھانے والو !تم نیوٹرل(غیر جانبدار) کیوں ہو ؟‘‘

انہوں نے یہ وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ نہ کہیے گا کہ’ کربلا کی جنگ حق و باطل کی جنگ تھی‘۔۔۔’ کربلا کی جنگ حق و باطل کی جنگ ہے‘ کربلا کی جنگ ختم نہیں ہوئی ہے، اب ہر ایک کو طے یہ کرنا ہے کہ اسے امام حسین کے لشکر میں شریک ہونا ہے یا یزید کے لشکر میں۔ تم حسین کے ساتھ ہو یا یزید کے لشکر میں۔!!

مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر مرد و عورت ہی نہیں ہر وہ بچہ جو اندھیرے اور اُجالے کی تمیز رکھتا ہو، اس کی ذمے داری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو وہاں تک حق کا ساتھ دے ۔ تم جتنا باطل سے دور ہو سکتے ہو دور ہو جتنا باطل کو رد کر سکتے ہو رد کرو۔ حق و باطل کی جنگ میں دو ہی صورت ہیں’حق یا باطل‘۔۔۔ درمیانی کوئی چیز نہیں۔مولانا عقیل الغروی کی اس مجلس کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ’’ نیوٹرلزم(غیر جانبداری) کے معنی ٰ ہیں منافقت‘‘۔ انہوں نے بہ اصرار کرتے ہوئے کہا کہ’’ عزیزو ! فرشِ عزا سے اُٹھّو تو بتاؤ دُنیا کو کہ ہم (ایک) خدا رکھتے ہیں۔‘‘

مولانا موصوف کے خطاب میں علم و ادب کا رنگ بھی جلوہ بنتا رہتا ہے سو اسی مجلس میں انہوں نے جوش ملیح آبادی کے ایک مشہور شعر( ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے/ اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی) کو پڑھتے ہوئے کہا کہ یقیناً صبح ہو یاشام ہو،ہر گزرتا ہوا لمحہ خدا کے ہونے کی اِک د لیل ہےلیکن اِنہیں لمحوں میں لوگ سانس لیتے رہتے ہیں اور خدا کا انکار کرتے رہتے ہیں۔ شبیر حسن خاں جوشؔ نے کہا:۔اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی۔۔۔ اور میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ: ’’نہ مدرسے، نہ مساجد،نہ فلسفہ ، نہ کلام/ ثبوتِ حق کے لیے بس حسینؑ کافی ہیں۔‘‘

مولانا موصوف نے خدا کے استدلال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا : خدا کی وحدانیت کاسبق یہی ہے کہ تم سب میری ایکتا میری وحدانیت کا یقین کر کے سب ایک رہو، ایک ہو جاؤ، اللہ کی خاطر، خدا کی خاطر،ایشور کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرو، ایک دوسرے کا احترام کرو۔۔۔

اسی مجلس میں اِنسانی جان کی حرمت کے ضمن میں رسول اللہ کا ایک واقعہ بیان کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بار گاہ میں ایک مجرم حاضر کیا گیا کہ’ اس نے ایک بے قصور شخص کو قتل کر دیا۔‘ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غیظ و غضب کے عالم میں اس کی طرف متوجہ ہوئے، فرمایاکہ’ تو نے اللہ کی بنائی ہوئی عمارت کو منہدم کر دیا۔‘ یعنی یہ کہ جو آپ کا(انسانی) وجود ہے وہ اللہ کی بنائی ہوئی ایک تعمیر ہے، ایک قلعہ ہے، ایک قصر ہے۔ ذرا سوچیے کہ توحید کے ساتھ احترام انسانیت کا پیام کیسے جڑا ہوا ہے۔!!ہر انسان محترم ہے جبتک کہ وہ قانون کے دائرے میں اپنے آپ کو غیرِ محترم نہ بنا لے۔

مولانا موصوف نے انسانی عزت پر، انسانی آبرو پر گزشتہ شب کلام کرتے ہوئے فرمایا: ہر انسان کو اپنی عزت کی طلب ہوتی ہے۔ باپ یہ چاہتا ہے کہ اس کی عزت اس کے بچوں کی نگاہ میں نظر آئے، بچے بھی یہ چاہتے ہیں کہ باپ کی نگاہوں میں ان کی عزت ہو۔

انہوں نے بصد اصرار کہا: اپنے بچوں کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے’یہ گناہ ہے گناہ‘ رسول خداؐ نے فرمایا ہے کہ’اپنی اولاد کا اِکرام کرو، انھیں عزت دو۔ باپ پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی عزت کرے۔‘ اس حدیثِ مبارکہ کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا ئے محترم نے کہا کہ باپ ہی (بچے کی) عزت نہیں کرے گا تو بچّے میں(باپ کی) عزت کا شعور کیسے پیدا ہوگا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .