حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید عقیل الغروی نے مسجد ایرانیان (ممبئی ) میں جاری عشرۂ مجالس کی ساتویں مجلس کو خطاب کرتے ہوئے کہا: منبر ِحسینی اور مجلسِ حسینی کےخلوص و برکات تو بےشمار ہیں لیکن ا ن میں سب سے سامنے کی جو خیرات بنٹتی ہے یہاں سے، وہ تہذیب ِسخن کی خیرات ہے۔
انہوں نے کہا: منبر و مجلس سے جو علم کا دریا بہتا ہے اس سے ہمیں اپنے ایمان کے استحکام اورقلب و ذہن کی صحت کےلیے مسلسل توجہ کر نی چاہیے۔ یہ مجلسیں عام تفریح کی آماجگاہ نہیں بلکہ شفا خانے ہیں۔ لفظیات در اصل علم کا لباس ہوتے ہیں،ہم دور ِجدید کا ہر لباس بصد شوق حاصل کرکے زیب تن کرتے ہیں، سو منبر ِحسینی سے جو کچھ بنٹتا ہے وہ حسینی صدقے کا ایک خاص تبرک’’ تہذ یب ِسخن‘‘ ہے ہمیں اپنی نئی نسل کے اذہان کی اس تہذیبِ خاص سے تزئین اورصحت روحانی کی فکر ہی نہیں کرنی بلکہ اس کے حصول کےلیے سعی(کوشش) بھی کرنی چاہیے اور یہ کوشش کوئی جسمانی محنت کا نام نہیں بلکہ توجہ اور فکر کےایک عمل کا تقاضا ہے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید عقیل الغروی نے مزید کہا: جس طرح ہم اسکول ،کالج یا یونیورسٹی میں علوم و فنون کے حصول کے لیے فکر مند ہی نہیں بلکہ مسلسل اور ہر طرح کی کوشش کرتے ہیں جب کہ وہاں تو خطیر رقم تک فیس ہی نہیں بلکہ ’’ڈونیشن‘‘ کے نام پرجرمانہ بھی دیتے ہیں اس کے برعکس یہ مجلسیں تو آپ سے صرف توجہ اور غور و فکر کی طالب ہوتی ہیں۔
مولانا عقیل الغروی نےکہا کہ صاحبِ منبرنے آج یہ راز بھی عام کردیا کہ ایسے ایک دو نہیں کئی شہروں میں غیر اردو داں صاحبان سے شستہ، سلیس و بلیغ اور جاذب ِ توجہ اُردو زبان سنی توسوال کیا کہ یہ مُرصّع(سجی ہوئی) زبان آپ نے کہاں سےسیکھی تو فخریہ جواب ملا: ’ہم نے تو یہ زبان آقا حسینؑ کی مجلسوں سے سیکھی ہے۔‘
انہوں نے کہا: اب ذرا سوچیے کہ کتنی پاکیزہ ہوگی وہ مجلس کہ جس میں شرکت سے لوگوں کی زبان پاک ہوجاتی ہے۔ زبان کا پاک و بلند ہوجانا یہ نشانی ہے کہ اِنسان کی فکرو خیال کی دُنیا بھی نورانی ہو گئی ہے ۔ مولانا موصوف نے اپنے سامعین و حاضرین سے تاکید کی کہ یہ قدریں باقی رہنی چاہئیں، روزانہ یہ ضد نہ کیا کیجیے کہ ’’ مولانا!آسان زبان بولیے‘‘
انہوں مزید اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ہمیں ایک بزرگ کا یہ کہنا یاد آگیا کہ جو لوگ آسان زبان کی بات کرتے ہیں وہ دراصل اپنے جہل کا اظہار کرتے ہیں، علم ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں مشکل سےآسانی کی طرف لے جاتا ہے ۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمیں ابو جہل کی تیرگی میں رہنا ہے یا رسول و آل رسول کے نور سے فیضیاب ہونا ہے۔مولانا عقیل الغروی نے مجلسِ حسینی پڑھتے ہوئے صاف صاف کہا کہ’’ ہم منبر سے(نیچے) اُترنے والے نہیں ہیں ہم تو آپ کو کھینچ کر اوپر لانے والے ہیں‘‘ ان کا واضح اشارہ تھا کہ جہل کے منہ زور دریا میں ڈوبنے والوں کو ہمارا کام بچانا ہے۔
انہوں نے مجلس میں آنے والی نئی نسل سے کہا کہ آپ مجلس میں ڈائری قلم لے کر بیٹھیے(اور فوری طور پر جو سمجھ میں نہ آئے اسے نوٹ کیجیے بعد میں اسکے معنی و مطلب تلاش کیجیے۔، اب تو نئی نسل کے پاس گوگل جیسا ایک آسان ذریعہ میسر ہے) قلم کی تعریف بیان کرتے ہوئے مولانا موصوف نے بتایا کہ’’ قلم تو تمنائے رسول ہے، جو کہ پوری نہ ہوسکی۔ رسول نے آخری وقت ایک چیز مانگی تھی جو دُنیا نے نہیں دِی۔ لہٰذا قلم ہم ہر وقت ساتھ رکھیں تاکہ رسول کی یاد بھی باقی رہے اور رسول کا غم بھی تازہ رہے۔‘‘ قلم کی اہمیت وفضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ قرآنِ کریم کے29 ویں پارے میں سورہ ٔقلم ہم سب کےلیے ایک درسِ الٰہی بنی ہوئی ہے۔