بدھ 3 اگست 2022 - 11:00

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین سید عقیل الغروی نے مسجد ایرانیان (مغل مسجد) میں مجلس کو خطاب کرتے ہوئے کہا:ہلال محرم نمودار ہوتے ہی اِک نئے ہجری سال کا آغاز ہو رہا ہے۔ جو تمام انسانوں کے لیے اپنے ساتھ بہت سے اہم پیغام اور زندگی کی مختلف صاف و شفاف تصویر لے کر آتا ہے، اگر انسان چاہے تو اس سے سبق لیتے ہوئے اپنی زندگی اک نئےسِرے سے شروع کر سکتا ہے۔ زندگی کے از سر نو آغاز کے معنیٰ یہ ہیں کہ اِنسان کفر سے ایمان کی طرف،باطل سے حق کی جانب،سرکشی اورسرتابی سے اطاعت ِحق کی جانب اور بیعتِ حق کی طرف ہجرت کرتا ہے اور یہ ہجرت کس روشنی میں ہوتی ہے۔؟ وہ روشنی لے کر آتا ہے ہجری سال یعنی ہلال محرم اور اس روشنی کا نام وجودِ امام حسینؑ ہے ۔ خاتم النبین کی روح و جان حسین ؑاور مقامِ ختم نبوت کی دلیل و برہان حسینؑ ہیں۔

انہوں نے اپنے خطاب کے موضوعِ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ منتظمینِ مجلس کی فرمائش اور اپنی دِلی خواہش کو ملحوظ رکھتے ہوئے، کوشش یہ ہوگی کہ سیرتِ طیبۂ حسینیہ ِ یعنی فضائل امام حسینؑ ہی کا بیان ہوتا رہے۔ اس لیے اس عشرہ ٔ مجالس کا عنوان قرار پایا: امام حسینؑ: انوار و اقدار۔

مولانا موصوف نے کہا کہ دُنیا میں جتنی بھی آسمانی کتابیں ہیں جو کسی بھی زبان میں نازل ہوئی ہوں، چاہے وہ سنسکرت میں ہوں، چاہے وہ سریانی میں ہوں یا عبرانی میں یا پھر عربی میں ہو۔۔۔ جتنی آسمانی کتابیں نازل ہوئی ہیں ان میں جو کچھ بھی مضمونِ ہدایت ہیں وہ سب مضامین ِہدایت اگر مجسم شکل میں سامنے آ تےہیں تو وہ حسین ؑ کا پیکر ہے۔ موصوف نے اس موضوع پر مزید کہا کہ جتنی بھی آسمانی کتب ( غیر محرف حصے سے قطع نظر) ہیں ، ان کے معنی و مطلب ڈکشنری میں نہ تلاش کیجیے ، اُنھیں امام حسینؑ کی حیاتِ مبارکہ میں تلاش کیجئے۔

حجۃ الاسلام عقیل الغروی نے انسانی عظمت پر کلام کرتے ہوئے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ اگر انسان اپنی عظمت، اپنے وقار کو پہچان لے، سمجھ لے تو اس سے کوئی غیر انسانی ،غیراخلاقی عمل ہوہی نہیں سکتا۔ اسی طرح انہوں نے’گفتگو‘ کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے مثالاً کہا کہ انسان کی زبان ایک شمع کی لَو کی طرح ہے ، آپ کے وجود میں چھپا ہوا نور اسی زبان سے بکھرتا ہے، آپ کے کلام کے ذریعے ، آپ کے سخن کے ذریعے۔۔۔ زبان کی اہمیت اور تاثیر و تاثر پر موصوف نے شعرِ عقیلی بھی سنایا: اک شمع کی لَو رکھی گئی ہے جو دَہَن میں مقصود یہ ہے نور ِمحبت ہو سُخَن میں اس طرح انہوں نے زبانِ انسانی سے محبت کے نور کو عام کرنے کی تلقین کی۔

انہوں نے کہا: افسوس کہ ہمارے ہاں بعض لوگوں نے اس گفتِ نور کو بھی ’پیشہ‘ بنا لیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں جو قوت ِکلام دی گئی ہے، اس کا مقصد تھا ہم اپنے سخن سے، اپنے کردار سے نیکی کو عام کریں صد افسوس کہ ہمیں میں لوگوں نے ’سخن فروشی‘ اختیار کر لی، اور یہی وجہ ہے کہ منبر و کرسی تو ہمیں مل گئی مگر نیت کی خرابی اور عملِ بد کے سبب ہمارے سخن، ہمارے کلام سے تاثیر و تاثر اُٹھ گیا۔

مولانا عقیل الغروی کی مجلس، ان کے خطاب میں جس چیز پر توجہ کیا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ انسان تیرگی اور گمرہی سے نور کی طرف بڑھے، تیرگی ہی کفر کی طرف لے جاتی ہے، گمرہی ہی کا دوسرا نام باطل ہے۔ مولانا عقیل الغروی کے سخنِ مجلسی کی تاثیر و تاثر کا نور’ حسینی کردار‘ کی تبلیغ و ترسیل کرتا ہے کہ حسینی کردار منبعٔ نور ہے۔

مولانا نے سخن ِ الٰہی کی اصل و مقصود کی طرف ہمارے ذہن کو متوجہ کرتے ہوئےکہا کہ انسانی ہاتھوں سے لکھی ہوئی، سفید کاغذ پرعبارت کا نام قرآن نہیں ہے ، قرآن از اوّل تا آخر، ظاہر سے باطن تک،باطن سے ظاہر تک وہ سخن ہے جو نور ہے، اک مجرد نور ہے ، اِک زندہ نور ہے۔ قرآن کی عظمت کو سمجھیے کہ یہ سْخنِ الٰہی ہے، سوچیے کہ یہ کس کا سخن ہے۔؟

نور ہی پر کلام کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سخن سے بھی نور نکلتا ہے اور کردار سے بھی نور پھوٹتا ہے، مولانا عقیل الغروی نے کہا کہ ہم منبر پر آکر اہل ِبیت اطہار کا، محمد و آلِ محمد کا ذکر اس لیے کرتے ہیں کہ ان کا کلام سنائیں تو نور ہے اور اُن کی سیرت و عمل بیان کریں تو وہ بھی نور ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .