۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
سید عقیل الغروی

حوزہ/ انہوں نے امام جعفر صادق کی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے اس کہا: راستہ چلنے کی بھی زکات ہے اور وہ یہ ہے کہ راستے میں جو روڑے ہیں، رُکاوٹیں ہیں وہ ہٹاتے جائیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین سید عقیل الغروی نے مسجد ایرانیان (مغل مسجد) میں عشرہ کے تیسری مجلس کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ایک حسینی مسلمان کو ایسا ہونا چاہیے کہ جس راستے سے وہ گزر جائے تو لوگوں کو دیر تک یہ احساس ہو کہ’ اِدھر سےکوئی گزرا ہے۔

دراصل مجلس کے سننے والے نوجوانوں کے ایک حلقے نے مولانا موصوف سے ایک اپیل کی تھی کہ وہ جلوس ِ حسینی میں صاف صفائی کے موضوع پر حاضرین و سامعینِ مجلس کو ہدایت دیں۔ اسلام میں نماز و زکات ۔ زکات و نماز کی بہ اصرار تاکید کی گئی ہے،اسی ضمن میں صاحب ِمنبر نے ایک حدیثِ امام جعفر صادق بھی بیان کی ،جس کی تشریح یہ ہے کہ ’’ راستہ چلنے کی بھی زکات یہ ہے کہ راستے میں جو روڑے ہیں، رُکاوٹیں ہیں وہ ہٹاتے جاؤ۔

حجۃ الاسلام عقیل الغروی نے کہا: بظاہریہ بہت چھوٹی سی بات ہے مگر ہم اس قول کو اپنے برادران وطن کو یہ اطلاع دے سکتے ہیں کہ دیکھو! ہمارے امام ؑ نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ دوسروں کے لیے راستے کی جو رکاوٹیں ہیں انھیں ہٹاتے جاؤ۔

انہوں نے کہا: منبر پر بیٹھا ہوا شخص ہمارا رہبر ہوتا ہے اور اس پر واجب ہے کہ وہ ہمیں اور ہمارے ذہن کوہر طرح سے صحت مند بنانے کی سعی کرے اور آج مولانا عقیل الغروی نے نوجوانوں کی خواہش پر قولِ صادق بیان کر کے ایک چھوٹے سے مگر اہم تر فریضے کی طرف ہمیں متوجہ کیا۔

انہوں نے مزید کہا: منبرِ حسینی سےزندگی کی باتیں کی جانی چاہئیں اور زندگی میں صاف صفائی کی کس قدرضرورت ہوتی ہے ؟ ایک مومن سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے کہ دین میں طہارت و صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے۔ مولانا موصوف نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ جولوگ دوسروں کی راہ میں روڑےڈالتے ہیں ذرا سوچیے کہ وہ کیسا گناہ کرتے ہیں۔!! یہ کیسی شقاوت ہے یہ کیسی نادانی ہے اور کیسا ظلم ہے، یہ کیسی خدا کی نافرمانی ہے۔!!

مولانا موصوف نے راستے کی بلیغ تعریف کے ساتھ کہا کہ کسی کی بھی زندگی میں اور زندگی کی راہوں میں روڑے اٹکانا بہت بڑا گناہ ہے۔ (ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ)اس کا بھی جواب خدا کے حضور دینا ہوگا۔

اس مجلس میں مولانا محترم نےتلاوت قرآنی پرگفتگو کرتے ہوئے کہا : جس قوم کے اما م نےنوکِ نیزے پر تلاوت قرآنی کی ہو کیا اسےتلاوتِ قرآنی کی تاکید و تلقین کی ضرورت ہے ۔!!

موصوف نے معجزے پر بھی کلام کیا اور کہا کہ ایک سانس کا جانا اور دوسری سانس اکا آنا کیا معجزۂ خداوندی نہیں ہے۔سانس کے آنے اور جانے کے وقفے کے درمیان ہمارا زندہ رہنا، کیا معجزہ ٔالٰہیہ نہیں ہے۔!!

اسی دوران موصوف برادرانِ وطن کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک جگہ’’ نراکار و آکار‘‘ کی حقیقت پر بھی کلام کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ہمیں کسی کو بھی صد فیصد غلط نہیں کہنا چاہیے اور ہمیں اپنے آ پکو سو فیصد صحیح بھی نہیں سمجھنا چاہیےچونکہ ہنڈرڈ پرسنٹ صحیح جو ہوتےہیں تو وہ صرف معصومین ہوتے ہیں۔ ہمیں ان اخلاقیات کا پاس رکھنا چاہیے۔

ذرّے کو ذہن میں رکھتے ہوئے موصوف نے لقمان سےآن اسٹائن تک کا ذکرکرتے ہوئے بتایا کہ ذرّہ ذرہ خدا کی گواہی دےرہا ہے ، ہر ذرے میں ،ہر شے میں اللہ کی نشانی ہے جو اسکے ہونے کا ثبوت ہے کہ وہ واحد و یکتا ہے۔

اس مجلس عزا میں مولانا عقیل الغروی نے ’ سوال‘ کی (علم کی )اہمیت بھی واضح کر دی، ترجمے ،ترجمانی کے ساتھ اصل متن کی قدر پربھی ہمیں سوچنے پر آمادہ کیا۔ اصل متن کے پڑھنے سے ہمارا تعلق خدا سے براہ راست بنا رہے گا مگر غوروفکر، ترجمہ ترجمانی اورتاویل و تفسیر بھی ضروری ہے۔ اس تاکیدو تلقین میں قرآن کی تلاوت کی ضرورت و اہمیت مُسلّم تھی مگر تلاوت کرنے سے ، پڑھنے سے اگر ہماری سمجھ میں کچھ نہ آئے تو یہ پڑھنا کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ ؟

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .