۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
عسکری امام خان

حوزہ/ یہ جو مشہور ہے کہ امام نے درمیان حج مکہ کو ترک کردیا اور حج پورا نہیں کیا یہ غلط ہے،اس لئے کہ امام علیہ السلام نے ۸ ذی الحجہ کو مکہ چھوڑا ہے یعنی "یوم الترویہ"(۱) جبکہ حج کے اعمال جو مکہ میں احرام کے ساتھ اور عرفات میں وقوف کے ساتھ شروع ہوتے ہیں اس کا آغاز ذی الحجہ کی شب نہم سے ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ امام ابھی حج میں وارد ہی نہیں ہوئے تھے۔

تحریر: حجۃ الاسلام مولاناعسکری امام خان

حوزہ نیوز ایجنسی | سب سے پہلے میں اس مقام پر ایک شبہہ کا ازالہ کرتا چلوں اور وہ یہ ہے کہ یہ جو مشہور ہے کہ امام نے درمیان حج مکہ کو ترک کردیا اور حج پورا نہیں کیا یہ غلط ہے،اس لئے کہ امام علیہ السلام نے ۸ ذی الحجہ کو مکہ چھوڑا ہے یعنی "یوم الترویہ"(۱) جبکہ حج کے اعمال جو مکہ میں احرام کے ساتھ اور عرفات میں وقوف کے ساتھ شروع ہوتے ہیں اس کا آغاز ذی الحجہ کی شب نہم سے ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ امام ابھی حج میں وارد ہی نہیں ہوئے تھے کہ یہ کہا جائے کہ درمیان حج آپ نے مکہ ترک کر دیا اور حج کو ادھورا چھوڑ کر چلے گئے، ہاں امام نے عمرہ انجام دیا جیسا کہ بعض روایتوں میں صرف عمرہ کا ذکر آیا ہے، " ان الحسين ابن علي خرج يوم الترويه الى العراق و كان متعمرا" (۲).

اب سوال یہ ہے کہ حج کا موقعہ تو بہترین فرصت تھی امام علیہ السلام کے لئے اپنی بات کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے، کیونکہ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب اطراف و اکناف سے مسلمان حج کے لیے ٹوٹ کر مکہ آتے ہیں، لیکن امام علیہ السلام نے اچانک مکہ کو خیر آباد کہہ دیا، اس کی کیا وجہ تھی؟

مورخین نے اس کی چند وجہیں بیان کی ہیں جس کی دو اہم وجہ درج ذیل ہیں۔

۱_ جان کا خطرہ

مکے میں اور ٹھہرنا امام علیہ السلام کے لئے جان کا خطرہ تھا جیسا کی آپ نے ابن عباس کے جواب میں فرمایا: ہمارے لئے سرزمین مکہ میں قتل ہونے سے بہتر ہے کہ کہیں اور قتل کر دیے جائیں(۳)، یا اسی طرح آپ نے عبداللہ بن زبیر کے جواب میں فرمایا: میرے نزدیک ایک بالشت مکہ سے دور میرا قتل ہونا بہتر ہے اس سے کہ میں ایک بالشت مکہ کے اندر قتل کر دیا جاؤں، خدا کی قسم اگر میں جانوروں کی بلوں میں بھی جا کر پناہ گزین ہو جاؤں تو بھی وہاں سے یہ ہمیں ڈھونڈھ نکالیں گے اور قتل کر دیں گے، جب تک کہ یہ جو مجھ سے چاہتے ہیں وہ انہیں حاصل نہ ہو جائے(۴)۔

یا جیسا کہ محمد حنفیہ کے جواب میں آپ نے فرمایا اور صراحت کے ساتھ بیان کیا کہ یزید حرم الہی میں میرے قتل کا ارادہ رکھتا ہے(۵)۔

۲_ حرمت کعبہ کی پاسداری

امام علیہ السلام کو اس بات کی فکر تھی کہ کسی طرح کعبے کی حرمت پامال نہ ہونے پائے، جیسا کی آپ نے واضح لفظوں میں بیان کیا ہے کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ حرم امن الہی میں میرا خون بہے اور خانہ خدا کی حرمت پامال ہو جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) وقعۃ الطف ، صفحہ ۸۸.

(۲) وسائل الشيعه، جلد۱ صفحہ ۲۴۶۔

(۳) ابن کثیر؛ البدایہ و النہایہ ؛ جلد ۸، صفحہ ۱۵۹.

(۴) وقعۃ الطف ، صفحہ ۱۵۲.

(۵) زیدبن طاؤس؛ لہوف؛ صفحہ ۸۲.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .