۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
لبیک یا حسین

حوزہ / مولانا فدا حسین ساجدی نے ماہ محرم الحرام کی مناسبت سے "حدیث "حسینٌ مِنّي" کی سند کا جائزہ اور تاریخی پس منظر" کے عنوان سے تحریر لکھی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا فدا حسین ساجدی نے ماہ محرم الحرام کی مناسبت سے "حدیث "حسینٌ مِنّي" کی سند کا جائزہ اور تاریخی پس منظر" کے عنوان سے تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

امام حسین علیہ السلام کے بارے میں دوسرے قرآنی آیات اور معتبر احادیث جو ائمہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں موجود ہیں اور ان میں امام حسین علیہ السلام بھی شامل ہیں، ان کے علاوہ امام علیہ السلام کی فضیلت میں خاص طور پر بلند مضامین پر مشتمل ایسے احادیث تاریخی معتبر کتابوں میں نقل ہوئی ہیں جو کسی اور ائمہ کے بارے میں نہیں ہے۔ ان میں سے ایک " حسينٌ منّي وأنا من الحسين" والی حدیث ہے۔

ہم اس مقالے میں اس حدیث کی سند شناسی اور تاریخی پس منظر کے حوالے سے مختصر بحث کریں گے۔

حدیث کی سند

یہ حدیث شیعہ مشہور کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔ شیخ مفید نے اپنی کتاب 'الارشاد" میں اور ابن قولویہ نے اپنی مشہور کتاب "کامل الزیارات" میں نقل کی ہے۔ ( كامل الزيارات، جعفر بن محمد بن قولويه، ص 117 . الإرشاد ، الشيخ المفيد، ج 2، ص 127)

اور ان کے علاوہ شیعہ دیگر مشہور علماء نے بھی اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔

اہل سنت علماء میں سے اکثر نے اپنی کتابوں میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ جن میں صحاح ستہ میں سے:

سنن ترمذی (سنن الترمذی – (ج 8 / ص 275) سنن ابن ماجہ(سنن ابن ماجه، ج1، ص51) اور مسند احمد بن حنبل ( مسند أحمد بن حنبل، ج4، ص172) شامل ہیں۔

حاکم نیشاپوری نے بھی اپنی معروف کتاب "المستدرک علی الصحیحین"(المستدرك علي الصحيحين، ج 3، ص 194) میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے: "ھذا حدیث صحیح الاسناد وان لم یخرجاہ" یعنی اس حدیث کی سند صحیح ہے اگر چہ بخاری اور مسلم اپنی کتابوں میں اس حدیث کو نہیں لائے ہیں۔

اہل سنت کی معتبر ترین کتاب، "صحیح بخاری" کے مالک محمد ابن اسماعیل بخاری کے استاد، اہل سنت دنیا کے نامور محدث ابن ابی شیبہ کوفی (ابن ابی شیبہ کوفی نے دوسری سدی کے آخر اور تیسری سدی کے آغاز میں زندگی کی ہے) نے اپنی کتاب "المصنف" میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔

وہ اس حدیث کے سلسلۂ سند کو رسول پاک ( ص) کے ایک صحابی تک پہنچاتے ہیں جس کا نام" یعلی ابن مُرّة عامرى" ہے۔

حدیث کا تاریخی پس منظر

قال یَعلیٰ ابن مُرّة عامرى: "أَنَّهُ خَرجَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ إلَی طَعَامٍ دَعُوا لَهُ، فَإِذَا حُسَیْنٌ یَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فِی الطَّرِیقِ، فَاسْتقبَلَ أَمَامَ الْقَوْمِ ثُمَّ بَسَطَ یَدَهُ وَطَفِقَ الصَّبِیُّ یَفرُّ هَاهُنَا مَرَّةً وَهَاهُنَا، وَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ یُضَاحِکُهُ حَتَّی أَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ فَجَعَلَ إحْدَی یَدَیْهِ تَحْتَ ذَقَنِهِ وَالْأُخْرَی تَحْتَ۶ قَفَاهُ، ثُمَّ أَقْنَعَ رَأْسَهُ رَسُولُ اللَّهِ فَوَضَعَ فَاهُ عَلَی فِیهِ، فَقَبَّلَهُ، فَقَالَ: حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ، أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا، حُسَیْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ".

یعلی بن مرہ عامری کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کسی مہمانی پر جارہے تھے ۔ حسین (ع) راستے میں بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے سامنے کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ کھول دئے لیکن یہ بچہ (امام حسین) ایک طرف سے دوسری طرف بھاگ رہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ہنسایا۔ یہاں تک کہ حضرت نے ان کو پکڑ لیا، آپ نے ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا گردن کے پیچھے رکھا، پھر آپ نے ان کا سر اٹھایا اور اپنا منہ حسین کے منہ پر رکھا اور اسے بوسہ دیا۔ اس کے بعد فرمایا "حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، خدا اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرے۔ حسین اسباط میں سے ایک سبط ہیں۔" (ابن ابی شیبہ، 1409ھ، جلد 6، صفحہ 380)۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .