حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید منظور علی نقوی امروہوی نے کہا کہ ہمارے لیے آئمہ معصومین علیهم السلام کی زندگی حقیقتاً نمونہ عمل ہے انکا اس دنیا میں آنے کا مقصد ہدایت انسان ہے پس ہمارے لیے بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے ہر عمل و کردار کو آئمہ معصومین علیہم السلام کے مطابق بسر کریں.
انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہر عمل کا معیار دنیا نہیں ہونی چاہیے بلکہ اہل بیت علیہم السلام ہونے چاہئیں اب چاہے وہ سماجی، اجتماعی ہو ، آب چاہے ہم کسی بھی مقام پر اپنے آپ کو رکھ کر دیکھیں۔
مزید کہا کہ عزت و ذلت کا معیار بھی ایسا ہی ہے کیونکہ انسان عزت اور ذلت کو جب دیکھنا چاہتا ہے تو اس کی نگاہ دنیا کے چمک و دمک پر ہوتی ہے جو اس کے عزت کے معیار کو بدل دیتی ہے اور انسان ذلت میں اپنے لیے عزت کو تلاش کرنے لگتا ہے اور یہیں سے اس کا تعلق فقط دنیا سے ہو جاتا ہے اور راہ خدا سے بہت دور ہوتا چلا جاتا ہے یعنی یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ نور سے تاریکی وادیوں میں سفر طے کرنے لگتا ہے اور اس تارکی راہ میں ایسا مسط ہو جاتا ہے کہ اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ نور سے کتنا دور چلا گیا. بس ایک وقت میں وہ مقام آتا ہے کہ اسکو نور کی حاجت ہوتی ہے تو اس کو فقط اہل بیت علیهم السلام جو کی نور کے پیکر ہیں کوئی اور اس کو تاریکی سے نور کی طرف نہیں لا سکتا۔
پس ہمیں بھی چاہیے کہ ہم عزت اور ذلت کا معیار دنیا کی آسائشوں کو نہ بنائیں بلکہ ہمارے لیے عزت اور ذلت کا معیار اہل بیت علیہم السلام کی زندگی اور انکے اقوال ہونے چاہئیں.
امام حسین علیہ السلام کا وہ جملہ کہ مجھے ذلت کی زندگی سے عزت کی موت پسند ہے تو ہمیں یہ چاہیے کہ ہم اس عزت کو تلاش کریں جس عزت کی بات امام کر رہیں ہیں اور وہ ذلت کونسی ہے جس کا ذکر امام کر رہیں ہیں۔
مولانا منظور نقوی کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ہمیں امام کے اس بیان پر نگاہ ڈالنی ہوگی جس میں امام نے جب شب عاشور ایک شب کی مھلت مانگی تو آپ نے فرمایا خداوند متعال کی قسم مجھے نماز، تلاوت قرآن، دعا اور استغفار بہت پسند ہے پس یہاں سے ہمارے لیے پیغام دے دیا کہ عزت مال، دولت، منسب، جائداد و شھرت میں نہیں ہے حقیقی عزت فقط چاہتے ہو تو تمہاری دنیا اور آخرت کو نورانی بنائے تو جان لو وہ فقط نماز، تلاوت قرآن، دعا اور استغفار سے حاصل ہوگی اس کے علاوہ اب جو بھی عزت تمہیں دنیا سے حاصل ہوگی مال اور منسب کے ذریعے اس کا پروردگار کی نگاہ میں کوئی مقام نہیں ہے یہ موت کی آخری سانس سے پہلے تک تمہارے لیے مددگار تو ہو سکتی ہے مگر قبر اور آخرت میں اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا،پس وہ عزت حاصل کرنے کی کوشش کرو جو تم کو دنیا اور آخرت میں مقام اور منزلت حاصل کروائیں۔