۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
کیا اسلامی جمہوریہ ایران ایک عالمی طاقت بن کر اُبھر رہا ہے ؟

حوزہ/ ایران ناصرف خودکفیل ہو چکا ہے بلکہ برآمد بھی کرتا ہے اور ایرانی لیڈر شپ کئی بار اس بات کا برملا اظہار کر چکی ہے کہ ایران کی ہر میدان میں پیشرفت فقط ایران کے لئے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ اور مظلومین جہان کے لیے ہے۔

محمد صغیر نصر‌‌‌ٓ

ایران کا داخلی استحکام اور ترقی:

حوزہ نیوز ایجنسیدنیا میں وہی قومیں بامِ عروج پہ اپنے آثار ثبت کرتی ہیں جو صالح قیادت، خود انحصاری، کام میں استمرار اور داخلی اتحاد پر یقین رکھتی ہیں۔ ایران کے داخلی استحکام کا راز الہی آئیڈیالوجی میں پوشیدہ ہے کیونکہ دین مبین اسلام، معاشرے کی سیادت سب سے پہلے انبیاء اور انکے بعد معصوم جانشینوں کے سپرد کرتا ہے پھر اگلی ترتیب میں جامع الشرائط عادل علماء اعلام و فقہاء کو مسند اقتدار کا اہل سمجھتا ہے تاکہ معاشرہ اسلامی اصولوں اور الہی آئیڈیالوجی کے سایہ میں معنوی و مادی ارتقاء کا سفر طے کر سکے۔ ایران کا موجودہ سیاسی و اجتماعی نظام ایرانی دستور کے مطابق ولی فقیہ محور ہے یعنی تمام سیاسی، انتظامی و عسکری ادارے ( صدر، پارلیمنٹ، عدالت، فوج و دیگر) آئینی اعتبار سے ولی فقیہ کی سربراہی میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایران میں نظام اسلامی کے داخلی استحکام اور ترویج کے لیے کئی ایک منظم اور متنوع ادارے کام کر رہے ہیں تاکہ دنیا میں الہی عدالتی نظام کا چراغ روشن اور اسکی ضو فشانی کا تسلسل باقی رہے۔ ایران بھر میں اس وقت مجتہد سطح کے 900 آئمہ جمعہ ہیں جنکی مینجمنٹ مقام معظم رهبری کے دفتر کا ایک ذیلی ادارہ کرتا ہے اور اسی طرح ملکی سطح پہ 40 ہزار فعال بسیجی مراکز قائم ہیں جنکی برکت سے سردار نقدی کے مطابق سوا دو کروڑ ممبرز، بسیج بُک میں درج ہیں اور تقریباً 50 ہزار جہاد سازندگی(construction scouts) کے گروہ، ایران سازی میں مشغول ہیں جبکہ 65 ہزار کے قریب ایسے ثقافتی و علمی ادارے ہیں جو اسلامی علوم و ثقافت کے احیاء کے لیے مستقل مزاجی سے کام کر رہے ہیں یہ سب ادارے اور بعض دیگر ذیلی ادارے، انقلاب اسلامی ایران کے داخلی استحکام میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جسکی وجہ سے نظام ولایت فقیہ کی اسلامی اور عقلی منطق ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ راسخ تر ہو رہی ہے ان اداروں کا انتظام و انصرام بیشر حوزات علمیہ سے مربوط ہے۔

ایران کی علمی و سائنسی ترقی:
انقلاب اسلامی کے بعد ایران نے خودکفائی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر میدان میں بے پناہ ترقی کی ہے اور دنیا بھر میں تیز ترین ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں ایران کا پہلا نمبر ہے جسکی شرح نمو دیگر ممالک کی نسبت 11 گنا زیادہ ہے۔ بین الاقوامی سطح پر علمی رشد میں ایران کا پندرہواں، ایشیاء میں پانچواں جبکہ غرب ایشیاء میں پہلا نمبر ہے پھر اسکے بعد کہیں ترکی اور سعودی عرب کی باری آتی ہے۔ عالمی ادارے (ISC) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی 1225 فرسٹ کلاس یونیورسٹیز میں ایران کی 36 یونیورسٹیز شامل ہیں جبکہ ایران میں یونیورسٹیز کی کل تعداد 2569 ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق کتابیں چھاپنے میں ایران نویں نمبر پہ براجمان ہے جبکہ مزے کی بات یہ ہے کہ ایران میں علمی مقالات اور کُتب کا زیادہ تر حصہ الٰہیات اور میڈیکل پر مشتمل ہے اور اپنی ضرورت کی 90 فیصد دوائیاں ایران خود تیار کرتا ہے ساتھ دیگر ممالک کو برآمد بھی کرتا ہے اور نینو ٹیکنالوجی میں ایشیاء بھر میں ایران کا پہلا نمبر ہے۔ فضا نوردی میں ایران ان آٹھ بڑے ممالک میں شامل ہے جو فضا میں کامیابی کے ساتھ اپنی سیٹلائٹس بھیج چکے ہیں اگرچہ فقہ شیعہ میں ایرانی سپریم لیڈر کی نظر میں ایٹم بم بنانا حرام ہے لیکن ایٹمی توانائی کو پُر امن مقاصد کے لیے استعمال کرنا بلامانع ہے اور ایران یورینیم افزودگی سے متعلقہ تمام لوازمات مقامی سطح پہ خود بناتا ہے اور اس وقت دنیا بھر میں ایران، چودھویں ایٹمی طاقت ہے. مزید برآں تیل کے ذخائر میں ایران کا تیسرا اور قدرتی گیس کے ذخائر میں عالمی سطح پہ دوسرا نمبر ہے اور بقیہ روزمرہ کی اکثر اشیاء میں ایران برآمدکاروں کی لسٹ میں شامل ہے قابل رشک بات یہ ہے کہ یہ سب وسائل اور پیش رفت ایک الہی رہبر کی نگرانی میں انجام پا رہی ہے جو ایران کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی پِسی ہوئی مِلّتوں کے مفاد میں سرف ہو رہی ہے۔

ایران کی عسکری طاقت:

بین الاقوامی سطح پر عسکری برتری کا پیرامیٹر قرآنی معیارات کے بالکل برعکس ہے قرآن، الہی نظام پر ایمان کے تناسب کو جنگی برتری کا معیار قرار دیتا ہے جسکی ایک جھلک جنگ بدر اور حزب اللہ لبنان کی اسرائیل کے ساتھ جنگ میں مجسم صورت میں نظر آتی ہے جبکہ اہل دنیا ظاہری ہتھیاروں اور سالانہ جنگی بجٹ کو عسکری طاقت کا معیار قرار دیتے ہیں انکے خود ساختہ عددی معیارات یمن، لبنان، عراق اور شام جیسی معاصر جنگوں میں شکست کھا چکے ہیں لہذا آج کے جنگی میدان نے ثابت کر دیا ہے کہ اللہ پر راسخ ایمان اور اسکے نمائندوں کی اطاعت ہی طاقت کا سب سے بڑا معیار ہے اگرچہ اسلام صالح قیادت کی سربراہی میں اسلحہ کی جمع آوری اور عددی طاقت کا خیر مقدم کرتا ہے لیکن فقط اسی کو ہی کامیابی اور برتری کا معیار نہیں سمجھتا اس وقت ایران کے پاس الہی تفکر کے مطابق دنیا کی صالح ترین قیادت موجود ہے جس کے ایک اشارے پر لاکھوں جوان سبقت اطاعت میں رقص بِسمِل کا نمونہ پیش کرتے ہیں دنیا بھر میں الہی جھادی و استقامتی تفکر کے تحت گوریلا وار میں ایران اپنا ثانی نہیں رکھتا کیونکہ صدام سے لیکر داعش و امریکہ تک سب یہ بازو آزما چکے ہیں۔ ایران امت اسلامیہ اور اپنی حفاظت کے اکثر ہتھیار خود بناتا ہے عالمی طاقتوں کی طرف سے بدترین اقتصادی و تجارتی محاصرے کے باوجود ایران، میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی میں پانچویں پوزیشن پر براجمان ہے۔ راڈار، بکتر بند گاڑیاں، اینٹی ائرکرافٹ سسٹم اور دیگر دفاعی ضروریات میں ایران ناصرف خودکفیل ہو چکا ہے بلکہ برآمد بھی کرتا ہے اور ایرانی لیڈر شپ کئی بار اس بات کا برملا اظہار کر چکی ہے کہ ایران کی ہر میدان میں پیشرفت فقط ایران کے لئے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ اور مظلومین جہان کے لیے ہے لہذا الہی قیادت کے سائے میں ایران کی جامع اور تیز ترین شرح نمو یہ ثابت کرتی ہے کہ مستقبل قریب میں ایران، چند صف اول کی عالمی طاقتوں میں سے ایک ہو گا جس کا اعتراف پہلے ہی سے عالمی سطح پہ کیا جا چکا ہے جبکہ مشرق وسطیٰ میں ایران آج بھی درجہ اول پہ کھڑا ہے۔

جاری ہے....

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .