حوزہ نیوز ایجنسی | ولایت فقیہ کے موضوع پر سب سے اہم بحثوں میں سے ایک اس کے دلائل ہیں۔ ہمیشہ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آخر کس بنیاد پر ایک اسلامی معاشرے میں فقیہ کو دوسروں پر ترجیح دی جاتی ہے اور وہی سب پر ولایت و رہبری رکھتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ ولایت فقیہ کے دلائل، عقلی اور نقلی دونوں پہلو رکھتے ہیں؛ یعنی عقل بھی مسلمان کو زمانۂ غیبت میں فقیہ کی اطاعت کا حکم دیتی ہے اور اسلامی روایات بھی اسی کی تائید کرتی ہیں۔
عقلی دلیل کا تجزیہ
انسان چونکہ اجتماعی زندگی بسر کرتا ہے اور اپنی اس زندگی کے ذریعے روحانی و معنوی کمال حاصل کرنا چاہتا ہے، اس لیے اسے دو بنیادی عناصر کی ضرورت ہے:
1. الٰہی قانون: ایسا قانون جو خدا کی طرف سے ہو اور جس میں کسی قسم کی کمی، کوتاہی یا خطا نہ ہو، تاکہ ایک طرف انسانی سماج منظم رہے اور دوسری طرف اس پر عمل سب کے لیے سعادت کی ضمانت بنے۔ یہ قانون قرآن اور سنت کی شکل میں قیامت تک کے لیے ایک مکمل پروگرام ہے۔
2. عالم اور عادل حاکم: ایسا رہنما جو اس الٰہی قانون کو صحیح معنوں میں نافذ کرسکے۔
واضح ہے کہ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو تو انسانی معاشرہ انتشار، فساد اور بربادی کا شکار ہو جائے گا۔
یہی عقلی دلیل نبوت کی ضرورت کو ثابت کرتی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آئمہ معصومینؑ کی امامت کی ضرورت کو بھی بیان کرتی ہے، کیونکہ خدا کے قوانین کو نافذ کرنے اور اس کے احکام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سب سے بہترین شخصیت معصوم امام ہی ہوسکتا ہے۔
معصوم کون ہے؟
وہ ہستی جو فکر و نظر اور عمل و کردار میں گناہ اور خطا سے پاک ہو۔
اب عقل یہ سوال اٹھاتی ہے کہ اگر معصوم تک رسائی ممکن نہ ہو تو کیا کیا جائے؟
عقل کا جواب یہ ہے کہ چونکہ انسان کے لیے سماجی نظم اور کمالِ انسانی و الٰہی کی جدوجہد ہمیشہ ضروری ہے، اس لیے معصوم کے سب سے زیادہ قریب شخص کو اس کے مقام پر قرار دینا ہوگا۔
معصوم کے شایانِ شان اوصاف
دین اور معارف دینی پر مکمل اور جامع علم۔
تقویٰ، پرہیزگاری اور عصمت جو ذاتی مفادات اور خواہشات کو امت کے مصالح پر غالب نہ آنے دے۔
معاشرتی مسائل کی صحیح سمجھ اور بہترین تدبیر و قیادت۔
اب جب کہ عصرِ غیبت میں معصوم امام تک رسائی ممکن نہیں، تو اس کے قریب ترین صفات رکھنے والا شخص وہ فقیہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو، دینی علوم پر مہارت رکھتا ہو، امت کے امور سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور عملی میدان میں کارآمد ہو۔
کیونکہ:
غیر فقیہ کو اسلام، اس کے احکام اور معارف پر اتنی گہری آگاہی حاصل نہیں کہ وہ خدائی قانون کا نفاذ کرسکے۔
ایسا شخص جو جانکار ہو لیکن تقویٰ اور عدالت سے محروم ہو، خواہشاتِ نفس اور ذاتی مفادات کا شکار ہو سکتا ہے، اور اس پر مسلمانوں کی حکومت اعتماد کے ساتھ نہیں چھوڑی جا سکتی۔
اسی طرح اگر کسی کے پاس دینی علم و تقویٰ ہو لیکن انتظامی صلاحیت نہ ہو تو وہ لوگوں کے مسائل کو سنبھال نہیں سکتا اور نہ ہی مواقع پر صحیح اور فائدہ مند فیصلے لے سکتا ہے۔
اسی بنیاد پر عقل کہتی ہے کہ زمانۂ غیبت میں ولایت کا حق صرف ایسے فقیہ کو ہے جو دیانت، تقویٰ اور انتظامی بصیرت کے ساتھ امت کی رہنمائی کرسکے۔
(یہ بحث جاری ہے...)









آپ کا تبصرہ