۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
مراجع تقلید

حوزہ / دین اسلام آخری اور کامل ترین مکتب اور دین الہی ہے اور اس کے تمام دستورات انسان کی مصلحت کے مطابق ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان سعادتمند ہوتا ہے۔

ترتیب: محمد جان حیدری،رکن کردار سازی کونسل مجلس وحدت مسلمین پاکستان

حوزہ نیوز ایجنسی | اسلام آخری اور کامل ترین مکتب اور دین الہی ہے اور اس کے تمام دستورات انسان کی مصلحت کے مطابق ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان سعادتمند ہوتا ہے کیونکہ خداوند متعال جس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور ان کی زندگی کی مصلحتوں اور مفسدوں اور ان کی فطری خواہشات اور ضرورتوں سے آگاہ ہے اور انسانوں كی زندگی کے قوانین کو عبادی، اقتصادی، اخلاقی، تہذیبی، جسمانی، روحانی، انفرادی، اجتماعی وغیرہ جیسے وظائف کے عنوان سے پیغمبروں اور ان کے اوصیاء اور جانشینوں علیہم السلام کے ذریعے انسان تک پہونچایا ہے اور مجموعی طور پر اسلام کے نجات بخش قوانین اور نظام جو پیغمبر گرامی اسلام ﷺ اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے ذریعے بیان کئے گئے تین طرح کے ہیں:

۱۔ اصول دین اور اعتقادی علوم و معارف

۲۔ اخلاقی مسائل

۳۔ فروع دین اور عملی احکام

تیسری قسم یعنی عملی احکام جو کہ خداوند متعال کے احکام کے اس حصے سے مربوط ہے جو بہت زیادہ وسعت رکھتا ہےکیونکہ احکام وہ قوانین ہیں جو انسانوں کے تمام اعمال کو خواہ عبادی، اقتصادی، انفرادی، گھریلو، اجتماعی ، قضائی، جزائی وغیرہ جیسے اعمال کو شامل ہوتے ہیں اور احکام الہی كی ان تین قسموں کی نسبت سے چند مطالب کی طرف توجہ ضروری ہے:

الف: علم کی متعدد شاخیں ہیں اور ممکن ہے ایک فرد کسی ایک شعبے میں خاص مہارت رکھتا ہو لیکن دوسرے شعبے سے بے خبر ہو نتیجتاً عقل کے حکم کے مطابق جس شعبے میں مہارت نہیں رکھتا اُس شعبے کے ماہر افراد کی طرف رجوع اور ان کی بات کی پیروی کرے مثلاً جو شخص فضائی علوم میں مہارت رکھتا ہے جب وہ بیمار ہوتا ہے تو چونکہوہ خود بیماریوں اور اس كے علاج کے طریقوں سے ناآشنا ہے پس لامحالہ ایک ماہر ڈاکٹر کی طرف رُجوع کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور یہ ڈاکٹر ہے جو اسے دستور دے گا کہ فلاں ٹیبلٹ چند عدد کھائے یا فلاں انجکشن لگوائے۔ لہذا مجموعی طور پر وہ کام جو ہم انجام دینا چاہتے ہیں اور اس کی راہ و روش سے آشنا نہیں ہیں تو اس کے ماہر افراد کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کے چارہٴ كار کو اس کے ماہرین سے پوچھتے ہیں اور جس فن کو بھی سیکھنا چاہتے ہیں اسی فن کے استاد کی شاگردی کو انتخاب کرتے ہیں جو اس فن میں ماہر ہے اور بصیرت و آگاہی رکھتا ہے احکام شرعی اور حلال و حرام کی شناخت کا طریقہ اور اس سے آشنائی بھی اسی طریقے سے ہے اس لیے ایسے فقیہ كی طرف رجوع کیا جائے جو احکام دین میں ماہر اور اس کا اسپیشلسٹ ہو۔

ب: احكام الٰہی كا مخصوص منبع و ماخذ قرآن كریم اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیز ائمہ معصومین علیہم السلام كی وہ احادیث ہونی چاہئیں جو ان سے نقل ہوئی ہیں (كہ انہیں ثقلین كہا جاتا ہے)۔

ج: وہ مطالب اور علوم و معارف جو قرآن مجید اور احادیث اہل بیت علیہم السلام میں آئے ہیں ان کا سمجھنا اور حل کرنا آسان نہیں ہے بلکہ ایک خاص مہارت کی ضرورت ہے اور جب تک ایک شخص عربی زبان کے ادب اور اسلام کے مختلف علوم جیسے تفسیر قرآن، درایہ، حدیث شناسی ، علم رجال اور حدیث کے راویوں کی شناخت ، اصول فقہ، فقہائے اسلام کے نظریوں وغیرہ سے واقفیت میں مہارت نہ رکھتا ہو اور اصطلاحاً خداوند متعال کی توفیق سے درجہٴ اجتہاد اور فقاہت پر نہ پہنچا ہو ہرگز وہ احکام خداوند متعال کو اس کے منابع اور مصادر سے استخراج نہیں کر سکتا، آپ ایک مختصر سی کتاب ، رسالہٴ عملیہ یا توضیح المسائل کے نام سے دیکھتے ہیں اور شاید آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ رسالہٴ عملیہ ایک فقیہ اور مجتہد کی عمر کی كافی زحمت کا نتیجہ ہے کہ جس نے اپنی مہارت اور طاقت فرسا زحمات کے ذریعے اسے دینی منابع اور مصادر سے استنباط کرکے لوگوں کے اختیار میں قرار دیا ہے۔

جو کچھ بیان کیا گیا اسے مدّنظر رکھتے ہوئے فقہا اور مجتہدین كی طرف رجوع کرنا واضح ہو گیا کہ جنہوں نے اجتہاداور فقاہت کے راستے کو اس خاص وسعت کے ساتھ جو اس میں پائی جاتی ہے، طے کیا ہے اور مجتہد کی تقلید کا مسئلہ حکم عقل اور منطق سے ثابت ہے اور معلوم ہو گیا کہ تقلید کا معنی آنکھ بند کرکے کسی کی بات ماننا نہیں ہے کہ اسلام نے ہمیشہ اس کا مقابلہ اور مخالفت کی ہے اور قرآن مجید اسے نا پسند ترین صفات میں سے شمار کرتا ہے بلکہ تقلید اس معنی میں ہے کہ دین میں مہارت نہ رکھنے والا شخص ایسے شخص کی طرف جو دین میں مہارت رکھتا ہے اور اسپیشلسٹ ہے، رجوع کرے اور مندرجہ ذیل حدیث کو جو امام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل ہوئی مطلب کی تائید کے لیے جانا جا سکتا ہے:

’’ ...مَنْ کانَ مِنَ الفُقَهَاءِ، صائِناً لِنَفْسِهِ، حافِظاً لِدیٖنِهِ، مُخٰالِفاً عَلیٰ هَواهُ، مُطیٖعاً لأمْرِ مَوْلاهُ فَلِلْعَوٰامِ اَنْ یُقَلِّدُوْهُ... ‘‘ [19] ’’ ... فقہا اور مجتہدین میں سے جو شخص:

1۔ تحفظ نفس رکھتا ہو اپنے نفس کی حفاظت کرنے والا تاکہ خود کو خداوند متعال کی بندگی اور صراط مستقیم سے گمراہی اور کجروی سے محفوظ کر سکے‘‘۔

2۔ خداوند متعال کے دین کا محافظ اور نگہبان ہو۔

3۔ نفسانی خواہشات کی مخالفت کرے۔

4۔ خداوند متعال اور اپنے مولاۓحقیقی کے امر اور فرمان کا مطیع ہو تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کی تقلید کریں۔

جو کچھ بیان کیا گیا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ دینی مسائل اور احکام شرعی میں ان لوگوں کے لیے اظہارِ نظر کرنا جو مرتبہٴ اجتہاد پر فائز نہیں ہیں اور احکام کی دلیلوں سے آشنا نہیں ہیں، جائز نہیں ہے اور مومنین و مومنات پر واجب ہے کہ تمام دینی احکام اور شرعی مسائل میں قابلِ اعتماد مراجع عظام اور اسلام شناس افراد كی طرف رجوع کریں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .